آیت 58
 

وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّشۡکُرُوۡنَ﴿٪۵۸﴾

۵۸۔ اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے۔ یوں ہم شکر گزاروں کے لیے اپنی آیات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔

تشریح کلمات

نَکِدًا:

( ن ک د ) کسی چیز کی فراہمی میں آمادگی پیدا نہ کرنا۔

تفسیر آیات

زمین کی زرخیزی ہونے نہ ہونے کی وجہ سے بعض زمین پُرفیض یعنی سرسبز و شاداب ہوتی ہے اور بعض زمین روئیدگی کے قابل ہی نہیں ہوتی۔ جب کہ باراں و ہوا اور روشنی کا فیض ان پر یکساں طور پر ہوتا ہے۔

۱۔ وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ: زرخیر زمین کی طرح نیک باطن انسان خدائی رحمت و ہدایت کو فوراً قبول کر لیتا ہے

۲۔ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ: اور خبیث انسان شوریدہ زمین کی طرح نہ صرف یہ کہ رحمتوں کو قبول نہیں کرتا بلکہ اندر کی خباثتوں کو ابھار کر پور ے ماحول کو کانٹوں سے بھر دیتا ہے۔

۳۔ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ: ہم اپنی تعلیمات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں اور تمہارے سامنے روز مشاہدے میں آنے والی چیزوں کے ذریعے سمجھاتے ہیں کہ زمین کے مختلف علاقوں میں بارش ایک طرح سے برستی ہے لیکن بعض زرخیز زمین فیاض ہوتی ہے، شاداب ہو جاتی ہے اور بعض شورہ زار زمین میں پانی پڑنے سے اس کی شورہ زاری میں اضافہ ہو جاتا ہے اور مشکل سے کوئی پودا اُگتا ہے۔ انسان بھی اسی طرح ہیں۔ سب کے لیے اللہ نے ضمیر، وجدان، عقل، فرشتے اور انبیاء کے ذریعے ہدایت کا سامان فراہم کیا ہے۔ کچھ لوگ ان سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں اور ایمان کی طراوت سے ان کے ضمیر میں شادابی آ جاتی ہے اور کچھ کی شورہ زاری بڑھ جاتی ہے۔ یعنی کفر و سرکشی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا ۔۔۔ (۱۷ بنی اسرائیل: ۸۲)

اہم نکات

۱۔ اللہ کی رحمت سب کے لیے عام ہے۔ فرق انسان کی طینت میں ہے کہ وہ پاک ہے یا خبیث۔


آیت 58