آیت 57
 

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ابر گراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے مینہ برسا کر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو بھی (زمین سے) نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔

تشریح کلمات

اَقَلَّتۡ:

( ا ق ل ) الاقال اٹھانا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ: ہوا کے بارے میں تفصیل ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ: ۱۶۴۔

۲۔ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ: ہوائیں خود رحمت الٰہی ہیں اور بہت سی دیگر رحمتوں کے لیے ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ اس آیت میں ہوا کو بارش کی خوشخبری قرار دیا ہے۔ یعنی بارش کے آگے چلنے والی ہوا میں انسان کے لیے ایک فرحت ہے۔

یہ بات تشنہ تحقیق ہے کہ بارش سے پہلے چلنے والی ہوا ارضی حیات کے لیے کیا کیا نوید زندگی لے کر آتی ہے، جسے اللہ نے بُشۡرًۢا خوشخبری کہا ہے۔ البتہ یہ بات مسلم ہے کہ ہوا نہ ہوتی تو نہ سمندر کے بخارات بلندی کی طرف اٹھتے، نہ یہ بخارات سمندر سے خشکی کی طرف چلتے۔

۳۔ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا: جب ہوا اپنا پہلا کام کر لیتی ہے تو دوسرا کام یہ ہوتا ہے کہ بخارات بادل میں تبدیل ہونے کے بعد پانی سے لدے ہوئے وزنی بادلوں کو خشکی کی طرف چلائے۔

۴۔ سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ: مردہ زمین کو ہم سیراب کرتے ہیں۔ جس زمین میں نباتاتی حیات نہیں ہے، اس کو مردہ زمین کہتے ہیں۔

۵۔ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی: جیسا کہ ہم مردہ زمین سے نباتاتی حیات پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مرُدوں کو زندگی دیتے ہیں۔

ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ الحادی نظریہ رکھنے والوں کے پاس حیات کی کوئی توجیہ نہیں ہے کہ مردہ زمین سے حیات کس طرح نکل آئی۔ جب کہ یہ بات طے ہے کہ حیات کا سرچشمہ، حیات ہی ہوتی ہے۔

الٰہیاتی مؤقف کے مطابق مردہ زمین اور بے جان مادے میں حیات کا پیدا ہونا اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ اللہ بے جان زمین کو زندگی عطا کر تا ہے اور جو پہلی بار ایسا کر سکتا ہے وہ دوبارہ بھی ایسا کر سکتا ہے:

اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ (۵۰ ق: ۱۵)

کیا ہم پہلی بار کی تخلیق سے عاجز آ گئے تھے؟ بلکہ یہ لوگ نئی تخلیق کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ حیات بعد الممات پر دلیل بھی ہے۔


آیت 57