آیت 54
 

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ تمہارا رب یقینا وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا، وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ آگاہ رہو! آفرینش اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ جو عالمین کا رب ہے۔

تشریح کلمات

اسۡتَوٰی:

( س و ی ) یہ لفظ جب علیٰ کے ساتھ تعدی ہو تو قرار پکڑنے اور مستولی ہونے کے معنوں میں ہوتا ہے اور جب الٰی کے ذریعے متعدی ہو تو کسی چیز تک بالذات یا بالتدبر پہنچ جانے کے معنوں میں ہوتاہے، جیسے ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ ۔ ( ۲ بقرۃ : ۲۹)

الۡعَرۡشِ:

( ع ر ش ) چھت والی چیز کو کہتے ہیں اور اس میں بلندی بھی ملحوظ رہتی ہے۔ بادشاہ کے تخت کو اسی بلندی کی وجہ سے عرش کہا جاتا ہے اور بطور کنایہ عرش کا لفظ عزت، غلبہ اور سلطنت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے : فلانٌ قَلّ عرشہ ۔ فلاں کی عزت جاتی رہی۔

حَثِیۡثًا:

( ح ث ث ) کے معنی لکھتے ہیں: الاعجال و السرعۃ ۔ یعنی شتاب اور تیزی کرنا۔

تفسیر آیات

قرآن مجید میں سات مقامات پر اس بات کی صراحت کی ہے کہ آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیداکیا گیا ہے۔ (سورہ ہائے اعراف: ۵۴، یونس: ۳، ہود:۷، فرقان: ۵۹، سجدہ:۴، ق:۳۸ حدید: ۴)

یوم سے مراد ہمارے ارضی یوم نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ہمارے نظام شمسی کے وجود سے پہلے کا ذکر ہے۔ اس یوم کا تعلق کائنات کے کسی خاص شعبہ سے نہیں ہے۔ مثلاً کائنات میں سے ہمارے ارضی نظام کی تدبیر امور کے بارے میں فرمایا:

یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ (۳۲ سجدہ:۵)

وہ آسمان سے زمین تک امور کی تدبیر کرتا ہے پھر یہ امر ایک ایسے دن میں اللہ کی بارگاہ میں اوپر کی طرف جاتا ہے جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔

تو اس یوم کا تعلق تدبیری شعبہ سے بھی نہیں ہے بلکہ اس یوم کا تعلق کل کائنات سے ہے۔ یہ خود زمانہ وجود میں آنے سے پہلے کا ذکر ہے۔ لہٰذا ان ایام ستۃ کا تصور ہم اپنے زمانے کے حوالے سے نہیں کر سکتے۔ ان ایام کا تصور کرنے کے لیے ہمیں کل کائنات کی خلقت و ارتقا اور اس کی وسعت کو سامنے رکھنا ہو گا۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے :

وَ السَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ (۵۱ ذاریات: ۴۷)

اور آسمان کو ہم نے قوت سے بنایا اور ہم ہی وسعت دینے والے ہیں۔

درج بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق و توسیع اور ارتقا کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہر چیز کا یوم اس کے حساب سے ہوتا ہے۔ حکومتوں کے زوال و عروج کے ادوار کو یوم سے تعبیر کرتے ہیں۔ پوری انسانی زندگی کو دو یوم سے تعبیر کرتے ہیں۔

حدیث میں آیا ہے کہ یَوْمٌ لَکَ وَ یَوْمٌ عَلَیْکَ ۔۔۔۔ (الکافی ۸: ۲۰ خطبہ امیر المؤمنین علیہ السلام) یعنی زندگی میں ایک دن تیرے حق میں ہو گا تو ایک دن تیرے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہر چیز کے ایام کا اندازہ اس کی مناسبت سے کرنا ہو گا۔

الٰہی ایام کا اندازہ ہم اپنے محدود پیمانوں سے نہیں کر سکتے اور رسالتی ایام کا بھی اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔چنانچہ معراج کے موقع پر حضورؐ ہمارے زمانے کے چند لمحوں میں پوری ملکوت سماوات کی سیر فرما کر واپس تشریف لاتے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی کا زمانہ اور دیگر عوالم کے زمانے میں فرق بھی معلوم ہوا ہے۔ لہٰذا یوم سے مراد مراحل ہو سکتے ہیں۔

نیز قابل توجہ بات یہ ہے کہ نظریہ اضافت کے تحت خود زمانہ بھی مطلق چیز کا نام نہیں ہے بلکہ زمانہ ایک اضافی چیز ہے۔ یعنی زمانہ ہر جگہ یک گونہ نہیں ہے۔

ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ: پھر عرش پر متمکن ہوا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو خلق فرماتا ہے تو اس کی تخلیق میں دو عنصر نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں: اول یہ کہ اس کی تخلیق، ایجاد ہوتی ہے۔ یعنی عدم سے وجود میں لایا جاتا ہے۔ دوم یہ کہ تخلیق کے بعد مخلوق اپنی بقا میں بھی اللہ کی محتاج ہوتی ہے۔ جب کہ انسانی تخلیق میں یہ دونوں باتیں نہیں ہوتیں۔ نہ عدم سے وجود میں لایا جاتا ہے بلکہ ایک شکل سے دوسری شکل میں لایا جاتا ہے، نہ تخلیق کے بعد اس کی محتاج ہوتی ہے۔ ایک مکان یا ایک مشینری کے بنانے کے بعد وہ اپنی بقاء میں اس بنانے والے کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ کسی دوسرے کے سپرد ہو سکتی ہے۔

کائنات کی تخلیق اور اس کو عدم سے وجود دینے کے بعد اس نظام کی بقا اور اس کے ہر ذرے کا باقی رہنا، اس کے خالق کا محتاج ہے۔ یہ کائنات ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے خالق سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔

اس آیت میں دو باتوں کا ذکر ہے: عالم خلق اور عالم امر۔ عالم خلق کے بارے میں فرمایا کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور عالم امر کے بارے میں فرمایا: پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔ یعنی اس کائنات کے وجود میں آنے کے بعد بھی یہ سب اسی کے محتاج ہیں اور وہ اس پر حاکم اور مسلط ہے کہ سب کائنات اسی کے زیر نگین ہے اور کائنات کی تخلیق میں جس طرح صرف اس کی کن فکانی چلتی تھی، اس کی بقا و تدبیرِ امور میں بھی اسی کی حکمرانی چلتی ہے۔

چنانچہ قرآن میں جہاں بھی عرش پر متمکن ہونے کا ذکر آیا، وہاں اس کائنات کی تدبیر و حکومت کا ذکر ایک لازمہ کے طور پر آیا ہے۔ سورۂ یونس میں فرمایا:

ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ۔۔۔۔ (۱۰ یونس : ۳)

پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے۔۔۔۔

اس آیت میں عرش پر متمکن ہونے کے بعد تدبیر امور کو اس کا لازمہ قرار دیا ہے:

ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۲)

پھر اس نے عرش پر سلطنت استوار کی اور سورج اور چاند کو مسخر کیا، ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت کے لیے چل رہا ہے، وہی امور کی تدبیر کرتا ہے۔۔۔۔

اس آیت میں عرش پر متمکن ہونے کا نتیجہ شمس و قمر کی تسخیر و تدبیر بتایا۔

اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ مَا تَحۡتَ الثَّرٰی (۲۰ طٰہٰ: ۵ ۔ ۶)

وہ رحمن جس نے عرش پر اقتدار قائم کیا۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان اور جو کچھ زمین کی تہ میں ہے سب کا وہی مالک ہے۔

اس آیت میں بھی عرش پر متمکن ہونے کا لازمہ آسمانوں اور زمین کی ملکیت قرار دیا ہے۔

چنانچہ اسی زیر بحث آیت میں بھی عرش پر متمکن ہونے کے چند ایک نتائج بیان فرمائے ہیں:

۱۔ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ: وہ رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے۔ یعنی رات کی تاریکی دن کی روشنی پر غالب آتی ہے اور بلا فاصلہ بڑی سرعت اور تیزی کے ساتھ رات کی تاریکی دن کی روشنی کا تعاقب کرتی ہے۔

ہم نے اس سے پہلے بھی اس اہم ترین نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مجموعی طور پر کائنات زندگی اور حیات کے لیے سازگار نہیں ہے۔ کائنات کی وسیع و عریض فضاؤں میں زندگی کے پروان چڑھنے کے لیے بہت سے نامساعد حالات کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اس مقابلے کے لیے ایک قوت قہار اور لا متناہی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس ارضی فضا سے خارج ہونے کے بعد لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں ایک نہایت محدود فضا میں محدود مدت تک زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔

آیت کے اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات پر مجموعی طور پر تاریکی حاکم ہے اور دن کی روشنی اس لا محدود تاریکی کا ایک محدود فضا میں مقابلہ کرتی ہے۔ اس روشنی سے رب کائنات نے نظام حیات کو برقرار رکھا ہے، جو اس کی سلطنت کے تخت پرتمکنت، تدبیر عالم کا ایک نمونہ ہے:

ذُو الۡعَرۡشِ الۡمَجِیۡدُ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ (۸۵ بروج ۱۵ ۔۱۶)

بڑی شان والا، عرش کا مالک ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے اسے خوب انجام دینے والا ہے۔

۲۔ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ سورج، چاند اور تارے اس کے امر کے تابع اورمسخر ہیں۔ یہ امر بھی اس کی حکومت و سلطنت کی ایک لازوال نشانی ہے۔

۳۔ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ: دیکھو! خلق بھی اس کی اور امر بھی اس کا۔ تخلیق خدا کے مراحل ہوتے ہیں اور یہ تدریجی عمل ہے۔ چنانچہ خلق کا عمل چھ دنوں میں انجام پایا۔ جب کہ امر فوری عمل ہے:

وَ مَاۤ اَمۡرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ (۵۴ قمر: ۵۰)

اور ہمارا حکم بس ایک ہی ہوتا ہے پلک جھپکنے کی طرح۔

و لذا کان الخلق یقبل التدریج ۔۔۔ بخلاف الامر ۔ (المیزان)۔

اس طرح اس جملے میں خلق اور امر کا ایک جگہ ذکر فرما کر خلق اور امر دو مختلف عوالم ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔خلق ایجادہے اور امر بقائے نظام۔ خلقت کے بعد کائنات میں تصرف ہے۔ ان دونوں کا تعلق صرف اللہ ہی سے ہے۔ یہاں ایک لطیفہ قابل ذکر ہے۔ سفیان بن عینینہ جو قرآن کے غیر مخلوق ہونے پر زور دینے والوں میں سے ہیں، کہتے ہیں:

اللہ نے خلق اور امر میں فرق رکھا ہے، لہٰذا جو امر (قرآن) کو مخلوق سمجھے وہ کافر ہے۔ (محاسن التاویل ۷ : ۱۴۷۔ التفسیر المنیر ڈاکٹر زجیلی ۷: ۲۳۶۔)

سفیان اور ڈاکٹر زجیلی یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ وہ امر ہے جس کا تعلق پوری کائنات پر تصرف و تدبیر سے ہے۔ چنانچہ اسی آیت میں فرمایا: وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ کائنات کی تخلیق پرچھ دنوں کے ذکر سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ارتقا کا عمل تدریجی ہوتا ہے، یکبارگی نہیں ہوتا۔

۲۔ نظام کائنات کے تمام اختیارات کا ارتکاز اس جبروتی و ملکوتی قوت و سلطنت پر ہے جس کو اللہ نے عرش سے تعبیرکیا ہے۔

۳۔ تخلیق و تسخیر اور تدبیر سب کا تعلق ایک مرکز سے ہے جو تصور توحید پرقائم ہے۔


آیت 54