بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکہ) کی،

وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۲﴾

۲۔ جب اس شہر میں آپ کا قیام ہے،

2۔ اس آیت کی تین تفسیریں ہیں: الف۔ اس شہر مکہ کی قسم جب آپ اس شہر میں مقیم ہوں۔ حِلٌّۢ اس صورت میں حلول سے ہو گا۔ ب۔ اگر حِلٌّۢ کو حلال سے لیا جائے تو اس کی یہ تشریح ہو گی: اس شہر کی قسم جب آپ اس شہر میں لڑائی حلال ہونے کی صورت میں ہوں گے۔ اس صورت میں فتح مکہ کی طرف اشارہ ہے۔ ج۔ اس شہر کی قسم جس میں آپ کی حرمت کو حلال سمجھا جا رہا ہے۔

وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور قسم کھاتا ہوں باپ اور اولاد کی،

3۔ والد اور ولد سے مراد کعبہ کے معمار حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام ہو سکتے ہیں۔

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾

۴۔ بتحقیق ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔

4۔ کہ دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی جفاکشی اور مشقت میں مضمر ہے۔ خود دنیا کی زندگی اللہ نے کسی کے لیے عیش و آرام کے لیے قرار نہیں دی۔ اگر کسی کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ ہر قسم کے دکھ درد سے دور خوش و خرم زندگی گزارتا ہے تو یہ نہایت سطحی نظر ہے۔ ہو سکتا ہے یہ شخص اندر سے آتش میں جل رہا ہو۔ اگر کسی کا انجام بخیر ہو گا تو بھی مشقت کے نتیجے میں ہو گا اور انجام بخیر آخرت کا انجام ہے۔

اَیَحۡسَبُ اَنۡ لَّنۡ یَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ اَحَدٌ ۘ﴿۵﴾

۵۔ کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے؟

یَقُوۡلُ اَہۡلَکۡتُ مَالًا لُّبَدًا ؕ﴿۶﴾

۶۔ کہتا ہے: میں نے بہت سا مال برباد کیا۔

اَیَحۡسَبُ اَنۡ لَّمۡ یَرَہٗۤ اَحَدٌ ؕ﴿۷﴾

۷۔ کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا؟

اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾

۸۔ کیا ہم نے اس کے لیے نہیں بنائیں دو آنکھیں؟

وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور ایک زبان اور دو ہونٹ؟

وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿ۚ۱۰﴾

۱۰۔ اور ہم نے دونوں راستے (خیر و شر) اسے دکھائے،