کَلَّاۤ اِذَا دُکَّتِ الۡاَرۡضُ دَکًّا دَکًّا ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ ہرگز نہیں! جب زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کی جائے گی،

وَّ جَآءَ رَبُّکَ وَ الۡمَلَکُ صَفًّا صَفًّا ﴿ۚ۲۲﴾

۲۲۔ اور آپ کے رب (کا حکم) اور فرشتے صف در صف حاضر ہوں گے۔

22۔ خود اللہ تعالیٰ کا مکان کے دائرے میں محدود ہونا ممکن نہیں، اس لیے اللہ کے لیے لفظ ”آیا“ کی تعبیر درست نہیں ہے۔ لہٰذا لفظ ”حکم“ کو مراد ماننا پڑے گا: ”اللہ کا حکم آیا“۔

وَ جِایۡٓءَ یَوۡمَئِذٍۭ بِجَہَنَّمَ ۬ۙ یَوۡمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ وَ اَنّٰی لَہُ الذِّکۡرٰی ﴿ؕ۲۳﴾

۲۳۔اور جس دن جہنم حاضر کی جائے گی، اس دن انسان متوجہ ہو گا، لیکن اب متوجہ ہونے کا کیا فائدہ ہو گا؟

23۔ جس طرح اہل جنت کے لیے جنت نزدیک کی جائے گی، اسی طرح جہنم والوں کے لیے بھی جہنم حاضر کی جائے گی۔

یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ قَدَّمۡتُ لِحَیَاتِیۡ ﴿ۚ۲۴﴾

۲۴۔ کہے گا: کاش! میں نے اپنی اس زندگی کے لیے آگے کچھ بھیجا ہوتا۔

فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗۤ اَحَدٌ ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ پس اس دن اللہ کے عذاب کی طرح عذاب دینے والا کوئی نہ ہو گا۔

وَّ لَا یُوۡثِقُ وَ ثَاقَہٗۤ اَحَدٌ ﴿ؕ۲۶﴾

۲۶۔ اور اللہ کی طرح جکڑنے والا کوئی نہ ہو گا۔

یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ﴿٭ۖ۲۷﴾

۲۷۔ اے نفس مطمئنہ!

ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾

۲۸ ۔ اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔

فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا۔

وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ اور میری جنت میں داخل ہو جا ۔

3۔ روایت کے مطابق ہر مومن کو احتضار کی حالت میں پنجتن پاک علیہم السلام نظر آئیں گے اور یہی ندا آئے گی: میرے بندوں! محمد و اہل بیت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شامل ہو جاؤ اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ، تو اس وقت اس کے لیے موت سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہ ہو گی۔ (الکافی 3: 127) تاہم اس آیت کا صریح ترین مصداق سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کو قرار دیا گیا ہے۔