آیات 8 - 10
 

اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾

۸۔ کیا ہم نے اس کے لیے نہیں بنائیں دو آنکھیں؟

وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور ایک زبان اور دو ہونٹ؟

وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿ۚ۱۰﴾

۱۰۔ اور ہم نے دونوں راستے (خیر و شر) اسے دکھائے،

تشریح کلمات

النَّجۡدَیۡنِ:

( ن ج د ) النجد کے معنی بلند اور سخت جگہ کے ہیں۔

تفسیر آیات

ربط کلام اس طرح ہے: جس ذات نے تمہیں بینائی عنایت کی، اظہار خیال کے لیے زبان اور ہونٹ دیے اور خیر و شر میں تمیز کرنے کی قوت عنایت کی، اس ذات کی راہ میں انفاق تو ضیاع سمجھتا ہے؟

۱۔ انسان دونوں آنکھوں سے اپنے وجود سے باہر کی دنیا کو درک کر سکتا ہے۔ بیرونی دنیا کی چیزوں کے حجم، شکل اور رنگ کو درک کر لیتا ہے۔ آنکھوں کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی صناعیت میں ایک محیر العقول صنعت ہے اور دیگر اعضاء میں آنکھ بہت سے امتیازات کی حامل ہے کہ بڑی تیزی سے اشیاء کی شکل، رنگ، دور نزدیک، خوبصورت یا بدشکل اور بڑی چھوٹی ہونے کو دماغ کے لیے حاضر کر دیتی ہے۔

صرف اس ظاہر بینی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان آنکھوں کے ماوراء دو بصیرت کی آنکھیں بھی عنایت فرمائیں جن سے ان قدروں کا ادراک ہوتا ہے جو چشم ظاہر نہیں دیکھ سکتی۔ وہ ہے: وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ خیر و شر کا ادراک۔

۲۔ وَ لِسَانًا: زبان ایک مختصر عضو ہے جو انسانی زندگی کے لیے متعدد خدمات انجام دیتی ہے:

i۔ قوت ذائقہ اسی زبان کے ذریعے فراہم کی گئی ہے جس سے شیرین، تلخی و ترشی کا ادراک ہوتا ہے۔

ii۔ طعام کو دائیں بائیں دانتوں کے حوالے کرنے کے لیے چمچ کا کام دیتی ہے۔

iii۔ حلق سے نکلنے والی آواز کو حروف کی شکل میں لانے کے لیے زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور ان حروف کو جوڑ کر کلمات پھر کلام وجود میں آتا ہے جس سے انسان بیرونی دنیا کے لیے اپنا مدعا بیان کر سکتا ہے۔

۳۔ وَّ شَفَتَیۡنِ: ہونٹ انسان کے بیرونی دنیا سے اتصال قائم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے بند، کھول، سکڑاؤ اور پھلاؤ سے بہت سے حروف تشکیل پاتے ہیں اور کلام وجود میں آتا ہے۔ اگر زبان اور لب اللہ نے انسان کے لیے مسخر نہ کیے ہوتے تو حلق سے نکلنے والی آواز سے حروف نہ بنتے بلکہ بیل کی آواز کی طرح رہ جاتی۔

۴۔ وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ: ہم نے دو سطح مرتفع کی راہنمائی کی ہے۔ اس سے مراد خیر و شر کا راستہ ہے۔ اسے دشوار گزار ہونے کی وجہ سے نجدین کہا ہے چونکہ خیر کی سمجھ تو آسان ہے لیکن اس کا حصول آسان نہیں ہے۔نفس کے خلاف ایک جنگ جیتنے کے بعد اس کا حصول ممکن ہے۔ شر کو خیر کے ساتھ نجد کہا ہے۔ جیسے قمر کے ساتھ سورج کو بھی قمر کہا جاتا ہے اور قمرین کہتے ہیں۔

اس آیت سے انسان کا اپنے ارادے میں خود مختار اور آزاد ہونا بھی ثابت ہے جیسے فرمایا:

وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪﴿﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪﴿﴾ (۹۱ شمس: ۷۔ ۸)

اور (قسم ہے) نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا، پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے خیر و شیر کی راہ دکھا دی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔

خیر و شر کا ادراک اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت اور جبلت میں ودیعت فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ روم آیت ۳۰


آیات 8 - 10