آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ البلد

سورۃ مبارکہ کی ابتدا میں لفظ الۡبَلَدِ مذکور ہونے کی مناسبت سے اس سورۃ کا نام سورۃ البلد ٹھہرا۔

یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ آیات کی تعداد بالاتفاق بیس ہے۔

اس سورۃ مبارکہ میں انسان کے لیے دستور حیات اور نظام زندگی صرف ایک آیت میں بیان فرما دیا ہے۔ وہ ہے:

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ﴿﴾

بتحقیق ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔

یعنی انسان کی بقا و ارتقا کا سامان مفت میں میسر نہیں آتا۔ اس کی دنیوی اور اخروی حیات دونوں محنت اور مشقت کی مرہون منت ہیں۔

چنانچہ انسان کی ساخت و بافت بھی اس پر شاہد ہے کہ مشقت اور جنبش نہ ہو تو اس کے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، صحت گر جاتی ہے اور زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جو بچہ ابھی گہوارے میں ہوتا ہے وہ آرام سے نہیں بیٹھتا۔ بار بار ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے۔ چلنے کے دور میں داخل ہو تو دوڑتا رہتا ہے، اپنے جسم کی ساخت کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ اسی طرح انسان کو تازیست مشقت کرنا پڑتی ہے۔ اس کے انسانی اعضاء کا ذکر فرمایا جن سے انسان مشقت کارآمد بنا سکتا ہے۔ اس مشقت سے مطلوبہ فائدہ اٹھانے کے لیے فرمایا:

وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿﴾

اور ہم نے دونوں راستے (خیر و شر) اسے دکھائے۔

اس کے بعد زندگی کا کامیاب سفر طے کرنے کے راستے میں جو گھاٹیاں سامنے آتی ہیں ان کی نشان دہی کی ہے۔ وہ ہیں انسانوں کی خدمت، یتیم اور مسکین پر رحم کرنا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکہ) کی،

وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۲﴾

۲۔ جب اس شہر میں آپ کا قیام ہے،

وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور قسم کھاتا ہوں باپ اور اولاد کی،

تفسیر آیات

۱۔ لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ: اس آیت میں بلد سے مراد سب کے نزدیک شہر مکہ ہے اور سورۃ البلد بھی مکی ہے لہٰذا لفظ ھذا سے مکہ ہی کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔

۲۔ وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ: حِلٌّۢ بفتح حاء کا معنی گرہ کشائی ہے: وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿﴾ (۲۰ طٰہ: ۲۷ ( حِلٌّۢ جو نزول کے معنوں میں ہے اس میں بھی یہی معنی ملحوظ ہیں چونکہ مسافر کسی جگہ نزول کرتا ہے تو وہ سامان کھول دیتا ہے۔ بعد میں صرف نزول کے معنوں میں استعمال ہونے لگا:

وَ مَنۡ یَّحۡلِلۡ عَلَیۡہِ غَضَبِیۡ فَقَدۡ ہَوٰی﴿﴾ (۲۰ طہ:۸۱)

اور جس پر میرا غضب نازل ہوا بتحقیق وہ ہلاک ہو گیا۔

حِلٌّۢ بکسر حاء حلال کرنے کے معنوں میں ہے۔ یہ بھی اصل معنی گرہ کشائی سے استعارہ ہے، چونکہ حلال وہ ہے جس میں ممنوعیت کی گرہ کھول دی گئی ہو۔ اس آیت کی تین تفسیریں ہیں:

الف: اس شہر مکہ کی قسم جب آپ اس شہر میں مقیم ہوں۔ یہ تفسیر اس صورت میں درست ہے جب لغت اور استعمالات میں لفظ حِلٌّۢ (بکسرحاء) قیام کے معنوں میں استعمال ہونا ثابت ہو جب کہ یہ بات ثابت نہیں ہے۔ جن لوگوں نے کہا ہے حِلٌّۢ صفت یا مصدر ہے، بمعنی حالٌّ ہے اور حِلٌّۢ بمعنی نَزَلَ آتا ہے اور لکھا ہے کہ کہا جاتا ہے ھو حِلٌّۢ بموضع کذا۔ جیسے کہا جاتا ہے ھو حالٌّ بموضع کذا لیکن ان استعمالات کے اثبات کے لیے لغت سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔

دوسرے حضرات کہتے ہیں: حلول سے حالٌّ کہا جاتا ہے۔ حِلٌّۢ نہیں کہا جاتا اور حِلٌّۢ جب نزول کے معنوں میں آتا ہے تو اس کا مصدر الحلول ہوتا ہے اور حِلٌّۢ جب (بفتح حاء) ہو تو نزول کے معنوں میں ہے۔

صاحب روح المعانی نے اس بات کو قلت تتبع کا نتیجہ قرار دے کر رد کیا ہے لیکن انہوں نے اپنا تتبع پیش نہیں کیا۔

ب: دوسری تفسیر یہ ہے: قسم ہے اس شہر کی جب اس شہر میں لڑائی آپ کے لیے حلال ہو گی۔ اس صورت میں فتح مکہ کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح مکہ کے دن حرم میں قتل کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا یحل لاحد قبلی و لا یحل لاحد بعدی ولم یحل لی الا ساعۃ من نہار۔ (مجمع البیان ذیل آیت)

حرم میں قتل کرنا نہ مجھ سے پہلے، نہ بعد میں کسی کے لیے حلال ہے اور میرے لیے صرف دن کے ایک حصے کے لیے حلال قرار دیا ہے۔

ج: تیسری تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے اس شہر کی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کو حلال سمجھا جا رہا ہے کہ اہل مکہ آپ کو قتل کرنا یا اس شہر سے نکالنا جائز سمجھتے ہیں جب کہ یہ لوگ یہاں جانوروں کا شکار اور درختوں کا کاٹنا حرام سمجھتے تھے۔ اس صورت میں حِلٌّۢ اسم مصدر ہو گا حِلٌّۢ کا۔ یعنی مباح اور حلال قرار دینا۔

یہی تفسیر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے۔ یہ تفسیر روایت اور لغت دونوں کے موافق ہونے کی وجہ سے قابل ترجیح ہے۔

۳۔ وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ: شہر مکہ کے ساتھ قسم کھانے کی مناسبت سے باپ اور اولاد سے مراد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام ہو سکتے ہیں جنہوں نے اس شہر کو آباد کیا اور بیت اللہ کی تعمیر کی۔ چنانچہ اکثر مفسرین نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔


آیات 1 - 3