بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ۙ﴿۱﴾

۱۔قسم ہے آسمان کی اور رات کو چمکنے والے کی۔

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الطَّارِقُ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور آپ کو کس چیز نے بتایا رات کو چمکنے والا کیا ہے؟

النَّجۡمُ الثَّاقِبُ ۙ﴿۳﴾

۳۔ وہ روشن ستارہ ہے۔

اِنۡ کُلُّ نَفۡسٍ لَّمَّا عَلَیۡہَا حَافِظٌ ؕ﴿۴﴾

۴۔ کوئی نفس ایسا نہیں جس پر نگہبان نہ ہو۔

4۔ یعنی اس کے اعمال ثبت کرنے والے ہیں، یا یہ مقصود ہو سکتا ہے کہ اسے ہر حادثے سے بچانے والے فرشتے مؤکل ہیں۔ خصوصاً بچپن کی عمر میں۔ یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ اس کے نفس کو دوام حاصل ہے۔ یہ نفس وجود میں آنے کے بعد مٹنے والا نہیں ہے۔ شکلیں بدل جاتی ہیں، لیکن خود نفس انسانی کو دوام و بقا حاصل ہے۔ اس کے بعد اگلی آیات میں ان مراحل کا ذکر ہے جن میں انسانی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔

فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ؕ﴿۵﴾

۵۔ پس انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔

خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍ ۙ﴿۶﴾

۶۔ وہ اچھلنے والے پانی سے خلق کیا گیا ہے،

یَّخۡرُجُ مِنۡۢ بَیۡنِ الصُّلۡبِ وَ التَّرَآئِبِ ؕ﴿۷﴾

۷۔ جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں سے نکلتا ہے۔

7۔ آیت کا اشارہ ممکن ہے اس بات کی طرف ہو کہ مرد کے مادہ تولید کو مرد کے صلب (ریڑھ کی ہڈیوں) سے اور عورت کے تخم دان کو تَّرَآئِبِ (سینے کی ہڈیوں) سے بنیادی مواد فراہم ہوتے ہیں۔ بعض اہل تحقیق کا نظریہ ہے کہ صُّلۡبِ اور تَّرَآئِبِ دونوں کا تعلق مرد سے ہے، چونکہ اچھلنے والا پانی مرد کی طرف سے ہوتا ہے۔ عورت کا تخم تو مقاربت سے پہلے تخم دان سے جدا ہو چکا ہوتا ہے۔ پانچ دن تک انتظار میں رہتا ہے۔ اس اثنا میں مقاربت ہوئی تو حمل ٹھہر سکتا ہے۔ لہٰذا صُّلۡبِ اور تَّرَآئِبِ دونوں کو مرد میں تلاش کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں تَّرَآئِبِ ان ہڈیوں کو کہتے ہیں، جن سے نطفہ گزر کر پیشاب کی نالی میں وارد ہوتا ہے۔ والعلم عند اللہ ۔ بہرحال یہ قرآن کا اعلان ہے، جس کی حقیقت کا انکشاف آنے والی نسلیں کریں گی۔

اِنَّہٗ عَلٰی رَجۡعِہٖ لَقَادِرٌ ؕ﴿۸﴾

۸۔ بے شک اللہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔

8۔ جو ذات ریڑھ اور سینے کی ہڈیوں سے نطفہ بنا سکتی ہے، وہ اس انسان کو مٹی کے ذرات سے بھی دوبارہ بنا سکتی ہے۔

یَوۡمَ تُبۡلَی السَّرَآئِرُ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اس روز تمام راز فاش ہو جائیں گے۔

9۔ دنیا میں تو اللہ ستار العیوب ہے، کیونکہ یہ دارالامتحان ہے، لیکن دار الجزاء میں تو بہت سے لوگوں کے راز فاش ہو جائیں گے۔ دنیا میں نیک اور صالح بن کر لوگوں کو دھوکہ دینے والے قیامت کے روز رسوا ہو جائیں گے۔

فَمَا لَہٗ مِنۡ قُوَّۃٍ وَّ لَا نَاصِرٍ ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ لہٰذا انسان کے پاس نہ کوئی قوت ہو گی اور نہ کوئی مددگار ہو گا۔