آیت 4
 

اِنۡ کُلُّ نَفۡسٍ لَّمَّا عَلَیۡہَا حَافِظٌ ؕ﴿۴﴾

۴۔ کوئی نفس ایسا نہیں جس پر نگہبان نہ ہو۔

تفسیر آیات

آیت میں اِنۡ نافیہ ہے اور لَّمَّا اِلاّٰ کے معنی میں ہے اور یہ آیت سورہ کی ابتدا میں قسموں کا جواب ہے۔ یعنی قسم ہے آسمان کی اور ستارے کی کوئی نفس ایسا نہیں جس پر نگہبان نہ ہو۔

ہر نفس پر نگہبان ہے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے اعمال ثبت کر کے حفظ کرنے والا ہے مگر یہاں نفس کی بات ہے، عمل کی نہیں۔

دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے: حَافِظٌ سے مراد اسے ہر حادثے سے بچانے والے موکل فرشتے ہیں۔ خصوصاً بچپن کی عمر میں۔ جیسے فرمایا:

لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۱۱)

ہر شخص کے آگے اور پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے پہرے دار (فرشتے) مقرر ہیں جو بحکم خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں۔

تیسری تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ نفس کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ نفس کو دوام حاصل ہے۔ یہ نفس وجود میں آنے کے بعد معدوم ہونے والا نہیں ہے۔ انسان کو دوام و بقا حاصل ہے۔ جیسا کہ حضرت علی - سے مروی ہے:

انما خلقتم للبقاء لا للفناء۔۔۔۔ (غرر الحکم: ۲۲۹۱)

تم بقا کے لیے خلق کیے گئے ہو، فنا کے لیے نہیں۔

صاحب تفسیر المیزان اس جگہ فرماتے ہیں:

اس سے وہ اعتراض ختم ہو جاتا ہے جو اعادۂ حیات پر کیا جاتا ہے کہ انسان کا بعینہ دوبارہ زندہ کرنا محال ہے چونکہ جو دوبارہ زندہ ہو گا وہ بعینہ پہلا انسان نہیں بلکہ اس جیسا انسان ہے چونکہ پہلا انسان معدوم ہو گیا ہے۔

جواب یہ ہوا کہ نفس انسانی معدوم نہیں ہوتا چونکہ انسان کی شخصیت نفس سے محفوظ ہے، بدن سے نہیں۔ اگر مان لیا جائے کہ بدن معدوم ہوا ہے، نفس معدوم نہیں ہوتا۔ انتہی

اس کے بعد کی آیات میں ان مراحل کا ذکر ہے جن میں انسان کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔


آیت 4