بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ۙ﴿۱﴾

۱۔ ایک سوال کرنے والے نے عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے ہی والا ہے۔

1۔ امامیہ و غیر امامیہ مصادر میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا تو حارث بن نعمان الفہری نے کہا: محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کچھ کہ رہا ہے، اگر وہ صحیح ہو تو اے اللہ مجھ پر آسمان سے پتھر برسا دے یا مجھے دردناک عذاب دے۔ یہ کہ کر وہ اپنی سواری کی طرف چلا ہی تھا کہ ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر گرا اور اس کے نیچے سے نکل گیا اور وہ مر گیا۔ اس واقعہ کو شمس الدین صنفی نے شرح جامع الصغیر میں، زرقانی نے شرح مواہب اللدنیہ میں، شبلنجی نے نور الابصار میں شربینی نے السراج المنیرمیں، ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اور حسکانی نے دعاۃ الہداۃ میں نقل کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے الغدیر ج 1 ص285۔

لِّلۡکٰفِرِیۡنَ لَیۡسَ لَہٗ دَافِعٌ ۙ﴿۲﴾

۲۔کفار کے لیے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے،

مِّنَ اللّٰہِ ذِی الۡمَعَارِجِ ؕ﴿۳﴾

۳۔ عروج کے مالک اللہ کی طرف سے ہے۔

تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ﴿۴﴾

۴۔ ملائکہ اور روح اس کی طرف اوپر چڑھتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

4۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: اَلاَفَحَاسِبُوا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوا۔ فَاِنَّ اَمْکِنَۃَ الْقِیَامَۃِ خَمْسُونَ مَوْقِفاً کُلُّ مَوْقِفٍ مُقَامُ اَلْفِ سَنَۃٍ ثُمَّ تَلَا ہَذِہِ الْآیَۃَ ۔ (مستدرک الوسائل 12: 155۔ المیزان) تمہارا محاسبہ ہونے سے پہلے تم خود اپنا محاسبہ کرو۔ قیامت کے دن پچاس مراحل ہیں۔ ہر مرحلہ تمہارے حساب کے مطابق ہزار سال کے برابر ہو گا۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

زمانہ ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا۔ قیامت کا زمانہ اپنے عالم کے مطابق ہو گا۔ یہاں ارضی زمانے کے ساتھ ایک تشبیہ دی گئی ہے۔

فَاصۡبِرۡ صَبۡرًا جَمِیۡلًا﴿۵﴾

۵۔ پس آپ صبر کریں، بہترین صبر۔

اِنَّہُمۡ یَرَوۡنَہٗ بَعِیۡدًا ۙ﴿۶﴾

۶۔ یہ لوگ یقینا اس (عذاب) کو دور خیال کرتے ہیں،

وَّ نَرٰىہُ قَرِیۡبًا ؕ﴿۷﴾

۷ ۔ اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔

یَوۡمَ تَکُوۡنُ السَّمَآءُ کَالۡمُہۡلِ ۙ﴿۸﴾

۸۔ اس دن آسمان پگھلی ہوئی دھات کی مانند ہو جائے گا،

وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے

وَ لَا یَسۡـَٔلُ حَمِیۡمٌ حَمِیۡمًا ﴿ۚۖ۱۰﴾

۱۰۔ اور کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا،

10۔ اس دن کی ہولناکی کی تصویر ہے کہ اپنے گہرے دوست کی خبر گیری نہیں کرے گا۔ ہر شخص اپنی فکر میں پریشان ہو گا حالانکہ یُّبَصَّرُوۡنَہُمۡ دوستوں کو دکھائے جانے پر پہچان لے گا۔ دوست کی کیا بات، مجرم تو اس دن یہ چاہے گا کہ سب اس کے فدیہ میں دے دیئے جائیں اور خود بچ جائے، خواہ وہ بیٹا ہو، بیوی ہو، بھائی ہو، اپنے خاندان کے لوگ ہوں، بلکہ ساری دنیا کے لوگ فدیہ میں دے دیے جائیں اور خود بچ جائے۔