آیات 9 - 13
 

وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے

وَ لَا یَسۡـَٔلُ حَمِیۡمٌ حَمِیۡمًا ﴿ۚۖ۱۰﴾

۱۰۔ اور کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا،

یُّبَصَّرُوۡنَہُمۡ ؕ یَوَدُّ الۡمُجۡرِمُ لَوۡ یَفۡتَدِیۡ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِئِذٍۭ بِبَنِیۡہِ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ حالانکہ وہ انہیں دکھائے جائیں گے، مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو فدیہ میں دے دے،

وَ صَاحِبَتِہٖ وَ اَخِیۡہِ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور اپنی زوجہ اور اپنے بھائی کو بھی،

وَ فَصِیۡلَتِہِ الَّتِیۡ تُــٔۡوِیۡہِ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور اپنے اس خاندان کو جو اسے پناہ دیتا تھا،

تفسیر آیات

وَ فَصِیۡلَتِہِ: وہ خاندان جس میں یہ پیدا ہوا ہے۔

۱۔ قیامت کے دن کی ہولناک صورت حال میں ہر شخص کو اپنی ذات کی فکر ہو گی:

لِکُلِّ امۡرِیًٴ مِّنۡہُمۡ یَوۡمَئِذٍ شَاۡنٌ یُّغۡنِیۡہِ ﴿۳۷﴾ (۸۰ عبس: ۳۷)

ان میں سے ہر شخص کو اس روز ایسا کام درپیش ہو گا جو اسے مشغول کر دے۔

یعنی ہر شخص اپنی ابدی زندگی کا فیصلہ سننے کے لیے بے تاب اور پریشان حال ہو گا۔ کسی اور کی فکر کرنے کے لیے وہ سوچ بھی نہیں سکے گا خواہ وہ اس کا جگری دوست ہی کیوں نہ ہو بلکہ اس دن دوستی دشمنی میں بدل جائے گی:

اَلۡاَخِلَّآءُ یَوۡمَئِذٍۭ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۶۷﴾ (۴۳ زخرف: ۶۷)

اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

۲۔ یُّبَصَّرُوۡنَہُمۡ: حالانکہ وہ انہیں دکھائے جائیں گے۔ قیامت کے دن ان تمام لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن سے دنیا میں تعلق رہا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے نظریں نہیں چرا سکیں گے البتہ ایک دوسرے سے بھاگنے کی کوشش کریں گے۔

۳۔ یَوَدُّ الۡمُجۡرِمُ: مجرم چاہے گا اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے ہر چیز قربان کر دے۔


آیات 9 - 13