بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱﴾

۱۔ اے نبی! جو چیز اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دی ہے اسے آپ حرام کیوں ٹھہراتے ہیں؟ آپ اپنی ازواج کی مرضی چاہتے ہیں؟ اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

1۔ قرآن نے اس بات کی صراحت نہیں کی کہ وہ کون سی حلال چیز تھی جسے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آپ پر حرام قرار دیا۔ البتہ آیت کے سیاق سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیز بعض ازواج کو ناپسند تھی اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو انہوں نے زچ کیا تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس چیز کو ترک کرنے کی قسم کھائی۔ اس سلسلے کی روایات بھی مختلف ہیں۔ اسی طرح اس راز کے بارے میں بھی روایات مختلف ہیں جسے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک زوجہ نے فاش کر دیا۔ البتہ روایات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس راز کو فاش کرنے والی زوجہ حضرت حفصہ تھیں۔ انہوں نے یہ راز حضرت عائشہ کو بتا دیا۔

اس جگہ تو سب نے لکھ دیا : ”اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم) بھی اختیار نہیں رکھتے۔“ (صلاح الدین یوسف حاشیہ قرآن مطبوعہ سعودیہ) لیکن بہت سی جگہوں پر یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں: رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اختلاف ہو سکتا ہے۔ چونکہ ایک مجتہد کا دوسرے مجتہد کے ساتھ اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے۔ (قوشجی شرح تجرید باب الامامۃ) اس بات پر پوری امت کو اتفاق کرنا چاہیے کہ جب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم خدا میں تبدیلی کا حق حاصل نہیں ہے تو امت کے کسی فرد کے لیے کس طرح رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف جانا جائز ہو گیا۔

قَدۡ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمۡ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ ۚ وَ اللّٰہُ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۲﴾

۲۔ اللہ نے تمہارے لیے قسموں کے کھولنے کے واسطے (حکم) مقرر کیا ہے، اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ : قسم کھولنے کا یہ حکم جواز کی حد تک تو پوری امت کے لیے ہے کہ کفارہ دے کر قسم کھول لیں، لیکن رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفارہ دیا یا نہیں، اختلاف ہے۔

وَ اِذۡ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعۡضِ اَزۡوَاجِہٖ حَدِیۡثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتۡ بِہٖ وَ اَظۡہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیۡہِ عَرَّفَ بَعۡضَہٗ وَ اَعۡرَضَ عَنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَتۡ مَنۡ اَنۡۢبَاَکَ ہٰذَا ؕ قَالَ نَبَّاَنِیَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ﴿۳﴾

۳۔ اور (یاد کرو) جب نبی نے اپنی بعض ازواج سے راز کی بات کہی تھی پس جب اس نے اس (راز) کو فاش کیا اور اللہ نے نبی کو اس سے آگاہ کیا تو اس سے نبی نے اس کا کچھ حصہ بتا دیا اور کچھ حصہ ٹال دیا پھر جب نبی نے اپنی زوجہ کو وہ بات بتا دی تو وہ کہنے لگی: آپ کو یہ کس نے بتایا؟ فرمایا: مجھے (خدائے) علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔

اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللّٰہِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا ۚ وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ﴿۴﴾

۴۔ اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرو گی تو اللہ یقینا اس (رسول) کا مولا ہے اور جبرائیل اور صالح مومنین اور فرشتے بھی اس کے بعد ان کے پشت پناہ ہیں۔

صَغَتۡ : (ص غ ی) قرطبی اس لفظ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ای زاغت و مالت عن الحق ۔ کجی آئی اور حق سے منحرف ہو گئی۔ شاہ ولی اللہ کا ترجمہ ہے: ہر آینہ کج شدہ است دل شما۔ شاہ رفیع الدین کا ترجمہ ہے: کج ہو گئے ہیں دل تمہارے۔

وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ : قرطبی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں: ای تظاھرا و تعاونا علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالمعصیۃ و الایذاء ۔ یعنی تَظٰہَرَا کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دونوں نے نبی کی نافرمانی اور اذیت دینے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی۔ شاہ ولی اللہ کا ترجمہ ہے: اگر {باہم متفق شوید برنجانیدن پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم}۔ مولانا اشرف علی کا ترجمہ ہے: اگر اسی طرح پیغمبر کے مقابلے میں تم دونوں کارروائیاں کرتی رہیں۔

چونکہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایذا دینا دل کی بہت بڑی کجی کا نتیجہ ہے، اس لیے آگے دو صورتیں ان کے سامنے رکھ دی گئیں: یا تو اس ایذا سے باز آ جائیں اور اگر وہ اس ایذا پر کمر بستہ رہیں تو رسول اللہ کے ساتھ اللہ، جبرئیل، صالح مومنین اور فرشتوں کے مقابلے میں محاذ آرائی کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ لہجہ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک سنگین مسئلہ درپیش تھا۔

صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ : شواہد التنزیل 2: 352 اور تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، البحر المحیط میں آیا ہے کہ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ علی علیہ السلام ہیں۔ تفسیر البرہان میں اس آیت کے ذیل میں آیا ہے: محمد بن العباس نے اس جگہ پچاس احادیث بیان کی ہیں، پھر ان احادیث میں سے بعض کا ذکر کیا ہے۔ ان کے راویوں میں ابو رافع، عمار یاسر، ابن عباس و غیرہم کا ذکر آتا ہے۔

عَسٰی رَبُّہٗۤ اِنۡ طَلَّقَکُنَّ اَنۡ یُّبۡدِلَہٗۤ اَزۡوَاجًا خَیۡرًا مِّنۡکُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبۡکَارًا﴿۵﴾

۵۔ اگر نبی تمہیں طلاق دے دیں تو بعید نہیں کہ اس کا رب تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں عطا فرما دے جو مسلمان، ایماندار اطاعت گزار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار اور روزہ رکھنے والیاں ہوں خواہ شوہر دیدہ ہوں یا کنواری۔

5۔ اگر ان سے بہتر خواتین موجود نہ ہوتیں تو یہ تعبیر اختیار نہ کی جاتی اور ان صفات کا بھی ذکر آیا جن میں وہ بہتر ہوتیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔

6۔ حضرت ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے پوچھا : میں ان کو کیسے بچاؤں؟ (امام علیہ السلام نے) فرمایا: ”امر خدا کا حکم دو اور نہی خدا سے روکو۔ اگر تمہاری اطاعت کی تو تم نے ان کو جہنم سے بچا لیا اور اگر نافرمانی ہوئی تو تم نے اپنا فریضہ ادا کیا۔“ اولاد کے بارے میں یہ حکم ہے کہ سات سال کی ہو جائے تو اسے نماز کی عادت ڈالو۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَعۡتَذِرُوا الۡیَوۡمَ ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ٪﴿۷﴾

۷۔ اے کافرو! آج عذر پیش نہ کرو، جو عمل کرتے رہے ہو بس تمہیں اسی کی سزا مل جائے گی۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۸﴾

۸۔ اے ایمان والو! اللہ کے آگے توبہ کرو خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تم سے تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس دن اللہ نہ اپنے نبی کو رسوا کرے گا اور نہ ہی ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا اور وہ دعا کر رہے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے پورا کر دے اور ہم سے درگزر فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

نَّصُوۡحًا : صیغہ مبالغہ۔ یعنی خالص ترین توبہ۔ حضرت علیہ السلام سے روایت ہے: توبہ و استغفار کے چھ ستون ہیں: i گزشتہ گناہوں کے لیے ندامت۔ ii عدم اعادہ کا عزم۔ iii وہ تمام فرائض انجام دیں جو چھٹ گئے ہیں۔ iv لوگوں میں سے کسی کا حق تیرے ذمے نہ ہو۔ vگناہ کے ذریعے تیرے بدن کا جو گوشت بنا ہے، وہ غم و اندوہ سے پگھل کر تازہ گوشت بن جائے۔ vi اپنے کو اطاعت کی تلخی چکھا دے، جیسا کہ گناہ کی لذت چکھ لی تھی۔ (مستدرک الوسائل 12: 407 قریب منہ فی الکشاف 4: 569)

یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ : اس روز اللہ اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اہل ایمان کو رسوا نہیں کرے گا۔ اہل ایمان قیامت کے دن جب منافقین کو تاریکی میں دیکھیں گے تو دعا کریں گے رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا ہمارا نور ہمارے لیے پورا کر دیجیے۔ الکافی 1: 19 میں آیا ہے: قیامت کے دن ائمۂ معصومنین علیہ السلام مومنین کے آگے اور دائیں طرف ہوں گے اور انہیں جنت تک پہنچائیں گے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۹﴾

۹۔ اے نبی! کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کیجیے اور ان پر سختی کیجیے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اللہ نے کفار کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال پیش کی ہے، یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں مگر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہیں حکم دیا گیا: تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہو جاؤ۔

10 ۔ 11 زمخشری الکشاف 4: 571 پر اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: ان دونوں مثالوں میں دونوں ام المومنین کی طرف تعریض ہے کہ ان دونوں نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف کارروائیاں کیں اور شدید ترین طریقے سے ان دونوں کی تنبیہ ہے: لما فی التمثیل من ذکر الکفر۔۔۔ الی آخر کلماتہ۔ فلیراجع ۔

وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ اور اللہ نے مومنین کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کی ہے، اس نے دعا کی: اے میرے رب! جنت میں میرے لیے اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی حرکت سے بچا اور مجھے ظالموں سے نجات عطا فرما۔

وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ اور مریم بنت عمران کو بھی (اللہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔