محاذ آرا امہات المومنین


اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللّٰہِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا ۚ وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ﴿۴﴾

۴۔ اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرو گی تو اللہ یقینا اس (رسول) کا مولا ہے اور جبرائیل اور صالح مومنین اور فرشتے بھی اس کے بعد ان کے پشت پناہ ہیں۔

صَغَتۡ : (ص غ ی) قرطبی اس لفظ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ای زاغت و مالت عن الحق ۔ کجی آئی اور حق سے منحرف ہو گئی۔ شاہ ولی اللہ کا ترجمہ ہے: ہر آینہ کج شدہ است دل شما۔ شاہ رفیع الدین کا ترجمہ ہے: کج ہو گئے ہیں دل تمہارے۔

وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ : قرطبی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں: ای تظاھرا و تعاونا علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالمعصیۃ و الایذاء ۔ یعنی تَظٰہَرَا کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دونوں نے نبی کی نافرمانی اور اذیت دینے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی۔ شاہ ولی اللہ کا ترجمہ ہے: اگر {باہم متفق شوید برنجانیدن پیغمبر ﷺ}۔ مولانا اشرف علی کا ترجمہ ہے: اگر اسی طرح پیغمبر کے مقابلے میں تم دونوں کارروائیاں کرتی رہیں۔

چونکہ رسول اللہ ﷺ کو ایذا دینا دل کی بہت بڑی کجی کا نتیجہ ہے، اس لیے آگے دو صورتیں ان کے سامنے رکھ دی گئیں: یا تو اس ایذا سے باز آ جائیں اور اگر وہ اس ایذا پر کمر بستہ رہیں تو رسول اللہ کے ساتھ اللہ، جبرئیل، صالح مومنین اور فرشتوں کے مقابلے میں محاذ آرائی کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ لہجہ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک سنگین مسئلہ درپیش تھا۔

صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ : شواہد التنزیل 2: 352 اور تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، البحر المحیط میں آیا ہے کہ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ علی علیہ السلام ہیں۔ تفسیر البرہان میں اس آیت کے ذیل میں آیا ہے: محمد بن العباس نے اس جگہ پچاس احادیث بیان کی ہیں، پھر ان احادیث میں سے بعض کا ذکر کیا ہے۔ ان کے راویوں میں ابو رافع، عمار یاسر، ابن عباس و غیرہم کا ذکر آتا ہے۔