آیت 4
 

اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللّٰہِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا ۚ وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ﴿۴﴾

۴۔ اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرو گی تو اللہ یقینا اس (رسول) کا مولا ہے اور جبرائیل اور صالح مومنین اور فرشتے بھی اس کے بعد ان کے پشت پناہ ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللّٰہِ: اگر تم دونوں (حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ) اللہ کے سامنے توبہ کر لو اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت دینے اور رسول کے خلاف کاروائیاں کرنے سے باز آ جاؤ تو بہتر۔ اِنۡ تَتُوۡبَاۤ میں کس چیز سے توبہ کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے؟ وہ وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی توبہ نہ کرنے کی صورت میں وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ ہے جس پر یہ دونوں قائم تھیں۔

۲۔ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا: آیت کے اس جملے کی تشریح میں تفہیم القرآن نے جو اقوال نقل کیے ہیں ان کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں:

صَغْو عربی زبان میں مڑ جانے اور ٹیڑھا ہو جانے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے: ’’ہر آئینہ کج شدہ است دل شما‘‘ اور شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ ہے: ’’کج ہو گئے ہیں دل تمہارے۔‘‘ حضرات عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، سفیان ثوری اور ضحاک نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے۔ زَاغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا یعنی ’’تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں۔‘‘ امام رازی اس کی تشریح میں کہتے ہیں: عدلت و مالت عن الحق و ھو حق الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ ’’حق سے ہٹ گئے ہیں، اورحق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے۔‘‘ اور علامہ آلوسی کی تشریح یہ ہے: مالت عن الواجب من موافقتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِحُبِّ ما یحبہ و کراھۃ ما یکرھہ الی مخالفتہ۔ یعنی ’’تم پر واجب تو یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کچھ پسند کریں اسے پسند کرنے میں اور جو کچھ آپ ناپسند کریں اسے ناپسند کرنے میں آپؐ کی موافقت کرو مگر تمہارے دل آپ کی موافقت سے ہٹ کر آپ کی مخالفت کی طرف مڑ گئے ہیں۔‘‘

۳۔ وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ: اس جگہ بھی ہم تفہیم قرآن کی عبارت نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

تَظَاھُر کے معنی ہیں کسی کے مقابلے میں باہم تعاون کرنا یا کسی کے خلاف ایکا کرنا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے: ’’اگر باہم متفق شوید بر رنجانیدن پیغمبر۔ شاہ عبد القادر صاحب ترجمہ ہے:’’ اگر تم دونوں چڑھائی کرو گیاں اس پر۔‘‘ اور مولانا اشرف علی صاحب کا ترجمہ ہے: اور اگر اسی طرح پیغمبر کے مقابلے میں تم دونوں کارروائیاں کرتی رہیں اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:’’ اگر تم دونوں اسی طرح کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں۔‘‘

ظَاہَرَ دو آدمیوں کے آپس میں ایک دوسرے کی حمایت، مدد اور پشتیبانی کرنے کو کہتے ہیں۔ جب اس کے بعد عَلیٰ کا لفظ آئے گا تو خلاف کے معنی بن جاتے ہیں۔ لہٰذا اس فقرے کا واضح مطلب یہ ہے: اگرتم دونوں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ایک دوسرے کی حمایت اور پشتیبانی کرتی رہیں تو رسولؐ اکیلے نہیں ہیں۔

۴۔ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ: اگر تم دونوں نے رسول کے خلاف باہمی جتھابندی ختم نہ کی تو تمہارے مقابلے کے لیے رسول تنہا نہیں ہیں۔ اللہ، رسول کا حامی ہے۔ جبریل اور مؤمنین میں صالح ہستی ان کے حامی و ناصر ہیں اور ساتھ فرشتے بھی ان کے پشت پناہ ہیں۔ یعنی اگرتم باز نہ آئیں تو مذکورہ ذوات کے ساتھ محاذ آرائی ہو گی۔

لہجۂ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک سنگین مسئلہ درپیش تھا جس کے لیے وحی کو نہ صرف مداخلت کرنا پڑی بلکہ اس مہم جوئی کے خلاف اپنی طاقت کا اظہار کرنا پڑا۔

سید قطب فی ظلال القرآن میں اسی اندیشے کا اظہار کرتے ہیں:

اس سنگین اور ہولناک گرفت سے ہم اس حادثہ کی گہرائی اور قلب رسولؐ پر اس کے گہرے اثر کو سمجھ سکتے ہیں۔

اس جگہ تفہیم القرآن نے بھی بجا سوال اٹھایا ہے:

اس مقام پر سوچنے کے قابل بات دراصل یہ ہے اگر معاملہ صرف ایسا ہی ہلکا اور معمولی سا تھا کہ حضورؐ کبھی اپنی بیویوں کو کچھ کہتے تھے اور وہ پلٹ کر کچھ جواب دے دیا کرتی تھیں تو آخر اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خود ان ازواج مطہرات کو شدت کے ساتھ تنبیہ فرمائی۔

آیت کے لب و لہجے اور نص مضمون سے ایسا نہیں لگتا کہ معاملہ صرف ایک شہد کے شربت یا ماریہ کے واقعہ تک محدود تھا۔ میرا گمان یہ ہے۔ العلم عند اللّٰہ اصل راز جسے ایک فرد تک فاش کیا گیا تھا اس کے بعد راز ہی رہا ہے اور بہت بڑا خطرہ درپیش تھا جو وحی کی مداخلت کی وجہ سے ٹل گیا۔

قابل توجہ یہ ہے کہ اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اگرتم دونوں توبہ کرو، تو کیا ہو گا؟ نتیجہ مذکور نہیں ہے۔ سیاق کلام پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ اور اگر تم دونوں نبیؐ کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ گٹھ جوڑ کرو، تو کیا ہو گا؟ نتیجہ نہایت سنگین الفاظ میں بیان فرمایا: اس صورت میں اللہ، جبرئیل، مومنین میں سے صالح ہستی اور فرشتے تمہارے مقابلے میں میدان میں آئیں گے۔

وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: سے مراد شیعہ روایات کے ساتھ اہل سنت کے متعدد مصادر کا بھی اتفاق ہے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔

ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر جہاں حدیث کے ذکر کے بعد کہتے ہیں: ضعیف منکر جداً ۔ جیساکہ ان کی یہ عادت ہے۔ روح المعانی، زاد المسیر فی علم التفسیر۔ الکشف و البیان، تفسیر قرطبی۔ شواھد التنزیل۔ تفسیر ثعلبی۔ الدر المنثور ، ذیل آیہ شریفہ۔ اربلی کشف الغمۃ ۱: ۳۱۶، الصواعق المحرقۃ و دیگر متعدد مصادر۔ محمد بن العباس نے اس جگہ پچاس احادیث کا ذکرکیاہے پھر ان میں سے بعض احادیث بیان کی ہیں۔ ان کے راویوں میں ابو رافع، عمار یاسر، ابن عباس وغیرہم کا ذکر آتا ہے۔


آیت 4