آیت 6
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ: سب سے پہلے ہر عاقل پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر آنے والے خطرے سے بچائے خواہ وہ خطرہ وقتی ہی کیوں نہ ہو۔ اگر یہ خطرہ ہمیشہ اور ابدی ہو، پھر یہ خطرہ آتش میں عذاب کا ہو تو عاقل انسان کو اس پر سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

۲۔ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا: اور اپنے اہل و عیال کو بھی آتش سے بچاؤ۔ اس حکم کے تحت یہ بات کافی نہیں ہے کہ انسان خود تقدس مآب بن جائے اور اہل و عیال کو آتش جہنم سے نہ بچائے۔ حدیث ہے:

کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ۔ (بحار ۷۲: ۳۸)

تم میں سے ہر ایک ذمے دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اس آیت اور اس حدیث کی روشنی میں جس طرح ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ اپنے اہل و عیال جو اس کی رعیت ہے، کا ذمے دار ہے۔

مرد اپنے خاندان کے تمام افراد کے بارے میں، عورت اپنی زیر تربیت اولاد اور حقوق شوہر کے بارے میں ذمے دار ہے۔

۳۔ وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ: جس آتش کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس فقرے سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ جہنمی خود بھی آتش میں جلے گا اور اس کی آتش سے دوسرے جہنمیوں کی آتش میں اضافہ ہو گا۔

۴۔ وَ الۡحِجَارَۃُ: پتھر بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ واضح رہے کہ پتھر میں ایندھن بننے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔

۵۔ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ: جہنمیوں کو عذاب میں مبتلا رکھنے کے لیے فرشتے موکل ہیں۔ یہ فرشتے چونکہ عذاب دینے کے لیے خلق ہوئے ہیں اس لیے تند خوئی اور سخت مزاجی ان کی سرشت میں ہو گی۔

۶۔ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ: فرشتے اپنے ارادے کے مالک نہیں ہیں بلکہ جس مقصد کے لیے اللہ نے انہیں خلق کیا ہے اس سے انحراف نہیں کرتے۔ یہاں معصیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

۷۔ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ: جو امر ان کی خلقت میں ودیعت ہوا ہے اسے انجام دیتے ہیں۔ انجام نہ دینے کی صورت یہاں نہیں ہے چونکہ یہ اپنے ارادے کے مالک نہیں بلکہ تابع ارادۂ الٰہی ہیں۔


آیت 6