آیات 9 - 10
 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۹﴾

۹۔ اے نبی! کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کیجیے اور ان پر سختی کیجیے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اللہ نے کفار کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال پیش کی ہے، یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں مگر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہیں حکم دیا گیا: تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہو جاؤ۔

تفسیر آیات

۱۔ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا: کافروں کے لیے مثال کا مطلب یہ ہے کہ کفر انسان کو جہنمی بنا دیتا ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔ اسے کسی پاکیزہ ہستی سے نسبت فائدہ نہیں دے گی۔ اس کے لیے مثال حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویاں ہیں۔ ان دونوں عورتوں کو جلیل القدر انبیاء کی زوجات ہونے کی نسبت نے کوئی فائدہ نہیں دیا۔

۲۔ فَخَانَتٰہُمَا: ان دونوں بیویوں نے ان دونوں انبیاء علیہما السلام کے ساتھ خیانت کی۔ خیانت سے مراد اپنے نبی پر ایمان نہ لانا ہے، بے عفتی نہیں ہے۔

۳۔ وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ: انبیاء علیہما السلام کی بیویاں ہونے کے باوجود ان دونوں کو جہنم میں داخل ہونے کا حکم مل گیا اور اس نسبت نے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا۔


آیات 9 - 10