بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ رحمن نے،

عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾

۲۔ قرآن سکھایا ۔

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا۔

عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ﴿۴﴾

۴۔ اسی نے انسان کو بولنا سکھایا ۔

2 تا4۔ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ : قرآن کی تعلیم دی، یعنی جن و انس کو قرآن جیسی عظیم نعمت کی تعلیم سے نوازا، جو نعمت تخلیق سے بھی زیادہ بڑی نعمت ہے۔ اس لیے تخلیق سے پہلے تعلیم قرآن کی نعمت کا ذکر فرمایا:

عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ : اگر ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے بیان، یعنی الفاظ و آواز کی نعمت نہ ہوتی تو خود معانی کو مخاطب کے سامنے پیش کرنا پڑتا جو یا تو ناممکن ہے یا مشکل۔ مثلاً اگر پانی بتانا مقصود ہو تو ہم لفظ پانی کے ذریعے معنی کو آسانی سے پیش کرتے ہیں، ورنہ خود پانی کو سامنے رکھ کر سمجھانا پڑتا۔

اَلشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ ﴿۪۵﴾

۵۔ سورج اور چاند (مقررہ) حساب کے تحت ہیں۔

5۔ اللہ نے سورج اور چاند دونوں کو ایک باقاعدہ نظام کا پابند بنایا ہے۔ یہ دونوں سرمو اس کی مخالفت نہیں کر سکتے۔

وَّ النَّجۡمُ وَ الشَّجَرُ یَسۡجُدٰنِ﴿۶﴾

۶۔ اور ستارے اور درخت سجدہ کرتے ہیں۔

6۔ آسمانوں میں موجود عظیم ستاروں سے لے کر زمین میں موجود ایک چھوٹے سے درخت تک سب خدائے عظیم کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ یَسۡجُد فعل مستقبل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ سجدے قصد و ارادے سے وقتاً فوقتاً بار بار وجود میں آتے رہتے ہیں۔ بعض النَّجۡمُ سے مراد نباتات لیتے ہیں جن کے تنے نہیں ہوتے اور شجر کے تنے ہوتے ہیں۔

وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ ۙ﴿۷﴾

۷۔ اور اسی نے اس آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی۔

اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ﴿۸﴾

۸۔ تاکہ تم ترازو (کے ساتھ تولنے) میں تجاوز نہ کرو۔

وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تُخۡسِرُوا الۡمِیۡزَانَ﴿۹﴾

۹۔ اور انصاف کے ساتھ وزن کو درست رکھو اور تول میں کمی نہ کرو۔

9۔ یہ پوری کائنات اعتدال اور توازن پر قائم ہے۔ اگر اس اعتدال سے سرمو بھی انحراف ہو جائے تو یہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ ہے تکوینی میزان۔ اس کے ساتھ ایک تشریعی میزان بھی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس میزان میں انحراف نہ کرے ورنہ عدل اجتماعی اور انصاف ناپید ہو جائے گا اور دنیا ظلم وجور سے بھر جائے گی۔

وَ الۡاَرۡضَ وَضَعَہَا لِلۡاَنَامِ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور اسی نے مخلوقات کے لیے اس زمین کو بنایا ہے ۔

10۔ زمین اور زمین پر موجود تمام نعمتیں انسان کے لیے ہیں اور پھلوں اور دانوں کی سینکڑوں قسمیں فراہم فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ اللہ کا مقصد صرف انسان کو زندہ رکھنا نہیں ہے، اس کے لیے تو صرف ایک قسم کا غلہ کافی ہے، بلکہ اس انسان کو نعمتوں سے مالا مال کرنا بھی مقصود ہے۔