آیات 1 - 4
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الرحمن

اس سورۃ مبارکہ نام اَلرَّحۡمٰنُ ہے جو ابتدائی آیت سے ماخوذ ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے یا مدنی۔ بیشتر ترجیح مکی ہونے کو دی جاتی ہے۔

یہ دوسری سورۃ ہے اور اس سے پہلے سورہ انعام میں بھی جن و انس کو یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ کہ کر خطاب کیا گیا ہے۔

جابر بن عبداللّٰہ انصاری راوی ہیں:

لوگوں کے سامنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ الرحمٰن تلاوت فرمائی تو لوگ خاموش سنتے رہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنوں نے تم سے بہتر جواب دیا ہے جب یہ آیت پڑھی گئی: فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے تو جنات نے جواب دیا: لا و لا بشیء من آلائک ربنا نکذب۔ ہم اپنے رب کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ (بحار ۱۸: ۷۸)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

جو سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کرے وہ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ کے بعد یہ جملہ کہا کرے:

لاَ بِشَیْئٍ مِنْ آلَائِکَ رَبِّ اُکَذِّبُ۔ (الکافی ۳: ۴۲۹)

میرے مالک! میں تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ رحمن نے،

عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾

۲۔ قرآن سکھایا ۔

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا۔

عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ﴿۴﴾

۴۔ اسی نے انسان کو بولنا سکھایا ۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلرَّحۡمٰنُ: اس جگہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں سے اَلرَّحۡمٰنُ کا ذکر بتاتا ہے کہ آگے اللہ کی رحمانیت کے تقاضوں کا ذکر ہے۔ سب رحمتوں کا ذکر نہ ہو گا، جن رحمتوں کا ذکر ہو گا وہ سب سے بڑی رحمتیں ہوں گی۔

۲۔ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ: سب سے بڑی رحمت قرآن کی تعلیم ہے۔ قرآن کی تعلیم نعمت تخلیق سے بھی زیادہ عظیم نعمت ہے کیونکہ قرآن انسان کی غرض تخلیق پوری کرتا ہے۔ اگر قرآن جیسی کتاب ہدایت نہ ہوتی تو تخلیق عبث ہو جاتی۔ اسی لیے تخلیق کی نعمت سے پہلے قرآنی رحمت کا ذکر فرمایا ورنہ ترتیب تو یہ بنتی تھی کہ پہلے انسان کی پیدائش کا ذکر ہوتا بعد میں تعلیم کا۔ البتہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ قرآنی تعلیم کا انتظام انسان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا تھا۔ جیساکہ فرمایا:

اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿﴾ فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿﴾ (۵۶ واقعۃ:۷۷۔۷۸)

یہ قرآن یقینا بڑی تکریم والا ہے جو ایک محفوظ کتاب میں ہے۔

۳۔ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ: دوسری نعمت انسان کو وجود دینا ہے۔ وہ انسان جو اس کائنات میں اللہ کا معجزہ ہے۔ انسان کی تخلیق میں اللہ کی رحمتوں کی تجلیاں ہیں جو وصف و بیان سے بھی بالاتر ہیں۔

۴۔ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ: انسان کو بولنا سکھایا۔ اگر ما فی ضمیر کے اظہار کے لیے بیان یعنی الفاظ و آواز کی نعمت نہ ہوتی تو افہام و تفہیم کے لیے خود معانی کو مخاطب کے سامنے پیش کرنا پڑتا۔ مثلاً اگر پانی بتانا مقصود ہو تو ہم لفظ پانی کے ذریعے معنی آسانی سے پیش کرتے ہیں ورنہ خود پانی سامنے رکھ کر سمجھانا پڑتا جو یا تو ناممکن ہوتا یا مشکل۔


آیات 1 - 4