آیت 6
 

وَّ النَّجۡمُ وَ الشَّجَرُ یَسۡجُدٰنِ﴿۶﴾

۶۔ اور ستارے اور درخت سجدہ کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

النَّجۡمُ: ستارے کو کہتے ہیں۔ لفظ سے یہی معنی ذہن میں آتا ہے۔ اگرچہ لغت میں النَّجۡمُ بغیر تنے والے بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور بعض قابل توجہ مفسرین نے یہی معنی اختیار کیا ہے۔ وہ اس کے لیے الشَّجَرُ کا ذکر قرینہ گردانتے ہیں تاہم اس لفظ سے ستارے مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ اول تو النَّجۡمُ سے ستارے کی طرف ذہن جاتا ہے۔ ثانیاً اَلشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ کے ساتھ النَّجۡمُ کا ذکر آیا ہے تو ستارہ مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ ثالثاً قرآن میں دوسری جگہ النُّجُوۡم کا لفظ الشَّجَرُ کے ساتھ مذکور ہے وہاں النُّجُوْمِ سے ستارے ہی مراد لیے جا سکتے ہیں:

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسۡجُدُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ وَ النُّجُوۡمُ وَ الۡجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ کَثِیۡرٌ مِّنَ النَّاسِ۔۔ (۲۲ حج: ۱۸)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے نیز سورج، چاند، ستارے،پہاڑ ، درخت، جانور اور بہت سے انسان اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں۔

اس آیت میں بھی النُّجُوۡم کا ذکر اَلشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ کے ساتھ ہے یہاں النُّجُوۡمِ سے مراد یقینا ستارے ہیں۔

بتانا یہ مقصود ہو سکتا ہے کہ آسمانوں میں عظیم ستاروں سے لے کر زمین میں موجود چھوٹے سے درخت تک سب خدائے عظیم کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ یَسۡجُدٰ فعل مستقبل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے یہ سجدے قصد و ارادے سے وقتاً فوقتاً بار بار وجود میں آتے رہتے ہیں۔


آیت 6