آیات 7 - 9
 

وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ ۙ﴿۷﴾

۷۔ اور اسی نے اس آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی۔

اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ﴿۸﴾

۸۔ تاکہ تم ترازو (کے ساتھ تولنے) میں تجاوز نہ کرو۔

وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تُخۡسِرُوا الۡمِیۡزَانَ﴿۹﴾

۹۔ اور انصاف کے ساتھ وزن کو درست رکھو اور تول میں کمی نہ کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا: آسمان کو بلند اور میزان قائم کرنے میں ایک ربط اس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اس بلند و بالا آسمان میں توازن قائم رکھا ہے۔ اسی توازن پر آسمان یعنی اجرام سماوی قائم ہیں۔ چنانچہ حدیث نبوی ہے:

بالعدل قامت السمٰوات و الارض۔ (عوالی اللالی ۴: ۱۰۲)

آسمان و زمین عدل سے قائم ہیں۔

دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے: جہاں اللہ نے آسمان کو بلند کیا ہے وہاں حق و باطل میں تمیز کرنے والی قوت عقل کو ترازو بنایا یا یہ ہو سکتا ہے: جہاں اللہ نے آسمان کو بلند کیا ہے وہاں اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے شریعت و احکام کا میزان قائم کر کے حق و باطل ، صدق و کذب اور عدل و ظلم میں تمیز قائم کی۔ جیسے فرمایا:

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ۔۔۔۔ (۵۷ حدید: ۲۵)

بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔

بہرحال پوری کائنات اعتدال و توازن پر قائم ہے۔ اس اعتدال میں بال برابر بھی انحراف آ جائے تو یہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ ہے تکوینی میزان۔ اس کے ساتھ ایک تشریعی میزان بھی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس میزان سے انحراف نہ کرے ورنہ عدل اجتماعی اور انصاف ناپید ہو جائے گا۔ اس میزان کے مصادیق میں وہ ترازو بھی شامل ہے جس سے اوزان معلوم کیے جاتے ہیں۔

۲۔ اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ: میزان، وضع اس لیے کیا کہ تم اس میزان و معیار سے تجاوز نہ کرو اور اپنے معاملات میں ترازو کے ساتھ تولنے میں تجاوز نہ کرو۔

۳۔ وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ: لہٰذا جب تمہارے سامنے میزان آ گیا تو اپنے معاملات میں اوزان اور تول میں کمی نہ کرو۔ انسانی زندگی کا دار و مدار اجتماعی زندگی پر ہے، اجتماعی زندگی باہمی معاملات پر قائم ہے اور باہمی معاملات انصاف کے ساتھ ناپ تول پر موقوف ہیں۔


آیات 7 - 9