بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾

۱۔حا، میم ۔

وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾

۲۔ اس روشن کتاب کی قسم ۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ﴿۳﴾

۳۔ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے، یقینا ہم ہی تنبیہ کرنے والے ہیں۔

3۔ مبارک رات سے مراد ماہ رمضان المبارک کی وہ رات ہے جو قدر کی رات سے موسوم ہے، جیسا کہ سورۃ القدر میں فرمایا: ہم نے اس قرآن کو قدر کی رات میں اتارا۔ سورہ بقرہ میں فرمایا: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ شب قدر میں قرآن نازل ہونے سے مراد کیا ہے؟ کہ اس رات قرآن کا نزول شروع ہوا؟ یا اس رات پورا قرآن حاملین وحی کے حوالے کیا گیا یا اس رات کو قرآن بیت المعمور میں نازل ہوا؟ یا اس رات کو پورا قرآن قلب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک ساتھ نازل ہوا، پھر 23 سالوں تک تدریجاً بھی نازل ہوتا رہا؟ اس بارے میں نظریات مختلف ہیں۔ و العلم عند اللہ۔

فِیۡہَا یُفۡرَقُ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اس رات میں ہر حکیمانہ امر کی تفصیل وضع کی جاتی ہے۔

4۔ اس آیت سے اور سورۃ القدر کی آیت: تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ ۔ اس رات ملائکہ اور روح الامین اپنے رب کے اذن سے ہر بات کا حکم لے کر نازل ہوتے ہیں، سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ملکوتی نظام میں ایک رات ایسی ہے، جس میں وہ تمام امور کے فیصلے صادر کرتا ہے۔

اَمۡرًا مِّنۡ عِنۡدِنَا ؕ اِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ ۚ﴿۵﴾

۵۔ ایسا امر جو ہمارے ہاں سے صادر ہوتا ہے (کیونکہ) ہمیں رسول بھیجنا مقصود تھا۔

رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ۙ﴿۶﴾

۶۔ (رسول کا بھیجنا) آپ کے رب کی طرف سے رحمت کے طور پر، وہ یقینا خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ۘ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّوۡقِنِیۡنَ﴿۷﴾

۷۔ وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔

لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ؕ رَبُّکُمۡ وَ رَبُّ اٰبَآئِکُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی اور موت دیتا ہے، وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔

بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ یَّلۡعَبُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ لیکن یہ لوگ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں۔

فَارۡتَقِبۡ یَوۡمَ تَاۡتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ پس آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لے کر آئے گا،

10۔ امامیہ و غیر امامیہ مصادر میں یہ روایت مستند طرق سے منقول ہے کہ یہ دھواں قیامت کے زمانے کا ہے۔ غیر امامیہ مآخذ میں آیا ہے کہ قیامت کی علامات میں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دھواں، دابۃ الارض، یاجوج و ماجوج کا خروج، عیسیٰ علیہ السلام کا نزول، عدن سے آگ کا نکلنا اور جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسنا شامل ہیں۔ امامیہ مآخذ میں ان علامات کے علاوہ سفیانی اور دجال کے خروج اور امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا اضافہ ہے۔