آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الدخان

سورۃ المبارکۃ کا نام آیت فَارۡتَقِبۡ یَوۡمَ تَاۡتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیۡنٍ سے ماخوذ ہے۔

اس سورۃ المبارکۃ کی آیات کی تعداد کوفی قرائت کے مطابق ۵۹ ہیں۔ دیگر قرائتوں کے مطابق اس سے کم تعداد ذکر کیا جاتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ کوفی قرآئت معتبر قرائت ہے چونکہ یہ قرائت قاری عاصم بن ابی النجود اور ابو عبدالرحمن سلمی کے ذریعے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی قرائت ہے۔ چنانچہ مجمع البیان میں آیا ہے:

اعلم ان عدد اہل الکوفۃ اصح الاعداد واعلاھا اسناداً لانہ مأخوذ عن امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام۔

اہل کوفہ کی تعداد سب میں صحیح ترین تعداد اور اعلیٰ ترین سند کی حامل ہے چونکہ یہ قرائت امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے ماخوذ ہے۔

بعض اہل تحقیق سورہ ہائے حوامیم کے بارے میں یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ یہ سورتیں جو لفظ حٰمٓ سے شروع ہوتی ہیں اول تو ان سب کے مضامین ایک جیسے ہیں دوم یہ کہ حٰمٓ کے لفظ کے بعد تنزیل کتاب اور وحی کا ذکر ہوتا ہے۔ ان میں سے تین سورۃ حٰمٓ کے بعد تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ سے، دو سورتیں حٰمٓ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ سے، سورۃ شوری ، کَذٰلِکَ یُوۡحِیۡۤ اِلَیۡکَ سے اور ایک سورہ، تَنۡزِیۡلٌ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ سے شروع ہوتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾

۱۔حا، میم ۔

وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾

۲۔ اس روشن کتاب کی قسم ۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ﴿۳﴾

۳۔ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے، یقینا ہم ہی تنبیہ کرنے والے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ حٰمٓ: یہ سورہائے حوامیم کی پانچویں سورہ ہے۔

۲۔ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ: انسان کو راہ نجات و سعادت بیان کرنے والی اس کتاب کی قسم ہے کہ یہ قرآن ہم نے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے۔

۳۔ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ: یہ قرآن ایک مبارک رات میں نازل ہوا۔ سورۃ القدر میں فرمایا: وہ شب لیلۃ القدر ہے اور سورۃ البقرۃ آیت ۱۸۵ میں فرمایا: وہ شب ماہ رمضان میں ہے۔

۴۔ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ: یہ قرآن اس لیے نازل کیا کیونکہ ہم تنبیہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یعنی اس راہ نجات و سعادت سے منحرف ہونے والے غافل انسان کی تنبیہ کرنے کا جو ارادہ تھا اس کے نفاذ کے لیے یہ قرآن نازل کیا۔

یہاں ایک سوال نے مفسرین کے اذہان کو مشغول کیا ہے:

قرآن ۲۳ سالوں میں تدریجاً نازل ہوتا رہا ہے۔ ایک رات میں نازل کرنے کا کیا مطلب ہے؟

اس کا مشہور جواب یہ دیا گیا ہے کہ قرآن دو مرتبہ نازل ہوا ہے۔ ایک مرتبہ دفعتاً قلب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا اور دوسری بار تدریجاً ۲۳ سالوں میں نازل ہوا ہے۔

میرا گمان یہ ہے یہ سوال ہمارے زمانی ذہن میں آتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا عمل زمانی نہیں ہے لہٰذا جب قرآن کا نازل کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا جیسے اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ ہے تو غیر زمانی ہو گا دفعتاً یا تدریجاً کا سوال نہیں آتا اور جب اہل ارض کی طرف منسوب ہو گا تو زمانی اور تدریجی ہو گا۔ جیسے:

وَ قُرۡاٰنًا فَرَقۡنٰہُ لِتَقۡرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکۡثٍ وَّ نَزَّلۡنٰہُ تَنۡزِیۡلًا ( ۱۷ اسراء:۱۰۶)

اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کر کے نازل کیا تاکہ آپ ٹھہرٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا۔

لہٰذا عین ممکن ہے قلب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق غیر زمانی اور زمانی دونوں سے ہو لہٰذا دفعتہ و تدریجاً دونوں قابل جمع ہیں۔


آیات 1 - 3