یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمۡ بُرۡہَانٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ نُوۡرًا مُّبِیۡنًا﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔ اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا ہے۔

174۔ بُرۡہَانٌ : دلیل و حجت میں سے اس دلیل کو برہان کہتے ہیں جو ناقابل تردید ہو۔

یہود و نصاریٰ اور مشرکین پر رسالتمآب ﷺ کی رسالت کی حقانیت پر روشنی ڈالنے کے بعد پوری انسانیت سے خطاب فرمایا: تمہاری طرف اللہ کی جانب سے ایک ناقابل تردید دلیل آ گئی ہے۔ برہان سے مراد رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی ہی ہو سکتی ہے۔کیونکہ محمد ﷺ نے ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی جو علم و تمدن سے بالکل بے بہرہ تھا۔ اس زمانے میں یونان، مصر، عراق، ایران اور ہندوستان میں علمی مراکز موجود تھے اور تمدن بھی تھا، لیکن حجاز تو تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس معاشرے میں ایک شخص، ایک ایسا انسان ساز دستور حیات لے کر آتا ہے جس کی مثال پیش کرنے سے تمام انسان قاصر ہیں۔ یہ ذات خود اپنی جگہ ایک برہان ہے۔ اور نور مبین سے مراد قرآن مجید ہے۔ جس نے انسانیت کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم و تمدن کی روشن دنیا سے متعارف کرایا اور ساتھ روحانی امن و سکون کے عوامل سے روشناس کرایا۔