بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾

۱۔ (اے رسول) پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے خلق کیا۔

1۔ اہل ارض پر اللہ کی طرف سے رحمتوں کا نزول شروع ہوا۔ یعنی رحمۃ للعالمین پر ایک عظیم انسان ساز انقلاب کے لیے وحی کا نزول شروع ہوا، جس کی ابتدا اس حکم کے ساتھ ہوئی: پڑھ یعنی لکیروں کی تحریروں کو نہیں، بلکہ کائنات کی کھلی کتاب کو پڑھیے۔ اس پڑھائی کی ابتدا اپنے پروردگار کے نام سے ہو اور اس کتاب کا پہلا باب اس کائنات کے خالق کی خلاقیت کا مطالعہ ہو اور دوسرا باب اس کائنات کا عظیم معجزہ انسان کی خلقت ہو۔ پھر اس انسان کی تعلیم اور اس کے اہم ترین ذریعے قَلَم کے ذکر سے شروع کرنے سے معلوم ہوا کہ اس عظیم رسالت کا عنوان قرائت و کتابت ہے۔ یعنی انسان کی تعلیم و ترقی اور تہذیب و تمدن میں ایک عظیم انقلاب کی بنیاد ہے۔ واضح رہے کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کو محض ظاہری حواس کے ذریعے سے نہیں بلکہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اخذ کرتے تھے، اس لیے قرآن نے اس مطلب کو قلب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ جبرئیل کی روئیت کی بابت فرمایا: اس روئیت کی تصدیق دل نے کی ہے۔ مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی (نجم:11) ”جو کچھ دیکھا تھا اس کی دل نے تکذیب نہیں کی۔“ لہٰذا یہ کہنا کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نزول وحی اور نبوت کی تصدیق حضرت خدیجہ اور ورقہ بن نوفل سے لی ہے، صحیح نہیں ہے۔

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾

۲۔ اس نے انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا۔

اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾

۳۔ پڑھیے! اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔

الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾

۴۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔

عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾

۵۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔

کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾

۶۔ ہرگز نہیں! انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے۔

اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾

۷۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔

7۔ عام انسان جب دیکھتا ہے کہ وہ لوگوں سے بے نیاز ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اللہ سے بھی بے نیاز ہے، نتیجتاً طغیانی شروع کرتا ہے۔ حالانکہ اسے اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے۔

اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾

۸۔ یقینا آپ کے رب کی طرف ہی پلٹنا ہے۔

اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی ۙ﴿۹﴾

۹۔ مجھے بتاؤ وہ شخص جو روکتا ہے،

عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے ؟

10۔ پورا سورہ اگر پہلی وحی ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نزول وحی سے پہلے نماز علی الاعلان پڑھتے تھے۔ اس سے رسالت سے پہلے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔

روایت میں آیا ہے کہ یہ ابوجہل تھا جو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نماز پڑھنے سے روکتا تھا۔