آیات 6 - 7
 

کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾

۶۔ ہرگز نہیں! انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے۔

اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾

۷۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ کَلَّاۤ: بعض مفسرین نے اس جگہ كَلَّآ کا معنی حقاً کیا ہے۔ اکثر نے کہا ہے کہ مسترد کرنے معنوں میں ہے کہ اللہ نے انسان کو جس تعلیم و ارتقا کی نعمت سے نوازا ہے وہ ہرگز اس کے شکرگزار نہیں ہیں۔

۲۔ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی: انسان جب دیکھتا ہے کہ وہ لوگوں سے بے نیاز ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اللہ سے بھی بے نیاز ہے۔ پھر وہ سرکش ہو جاتا ہے۔

خود فطرت انسانی بھی اس بات پر شاہد ہے کہ انسان کو ضرورت کی چیزیں فراہم ہونے سے سکون ملتا ہے اور ضرورت سے زیادہ دولت ہونے پر بے چین اور سرکش ہو جاتا ہے۔ انسان کا ضمیر اور وجدان مال دولت کے پردوں کے پیچھے چلا جائے تو یہ انسان بے ضمیر ہو جاتا ہے اور جس نے نعمت دی ہے اسے بھی بھول جاتا ہے۔


آیات 6 - 7