آیات 3 - 5
 

اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾

۳۔ پڑھیے! اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔

الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾

۴۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔

عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾

۵۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِقۡرَاۡ: دوبارہ اقرأ کی تاکید ہے۔ اس سے پڑھنے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

۲۔ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ: پڑھ! آپ کا رب بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔ اس کی عنایتوں کی وجہ سے آپ پڑھ لیں گے اور وہ ہر قدم پر آپ کی مدد کرے گا۔

۳۔ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ: اللہ تعالیٰ کے فضل کرم میں سے ایک اہم چیز قلم کے ذریعے تعلیم ہے۔ انسان کے ذہن میں موجود معنی دوسروں کے لیے بیان کرنے کا ایک حل یہ ہو سکتا تھا کہ وہ معنی خود مخاطب کے سامنے پیش کیا جائے۔ مثلاً پانی کہنا مقصود ہے تو پانی اٹھا کر مخاطب کے سامنے رکھ دیا جائے۔ یہ کام مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہے۔ انسان نے خداداد صلاحیت کی بنیاد پر معانی اور مطالب دوسروں کے ذہن میں منتقل کرنے کے لیے ہر معنی کا لفظ وضع کیا۔ اب لفظ کے ذریعے معنی آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ اگر مخاطب سامنے موجود نہ ہو تو اس کے لیے الفاظ استعمال نہیں ہو سکتے۔ اس طرح انسان نے اپنی خداداد صلاحیت کی بنیاد پر الفاظ حاضر کرنے کے لیے کتابت ایجاد کی۔ اب آسانی کے ساتھ کتابت کے ذریعہ الفاظ حاضر کیے جاتے ہیں اور الفاظ کے ذریعہ معانی حاضر کیے جاتے ہیں۔ اس طرح افہام و تفہیم، تعلیم و تعلم آسان اور بعض صورتوں میں ممکن ہو گیا۔

چنانچہ قلم ہی کی وجہ سے گزشتگان کے تجربات آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتے اور ان سے آگے بڑھتے ہیں۔ اس طرح کتابت کی وجہ سے تہذیبیں وجود میں آئیں۔ تمدن کا وجود بھی قلم کے مرہون منت ہے۔ قلم سے بڑھ کر تعلیم کا ذریعہ کوئی نہیں ہے۔ نزول قرآن کے وقت قلم کی اس اہمیت کا لوگوں کو اندازہ نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ابتدائی وحی میں اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلم کی اہمیت بیان کی اور عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ فرما کر قلم کو ذریعہ تعلیم قرار دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے:

قیدوا العلم قیل و ما تقییدہ قال کتابتہ۔ (منیۃ المرید: ۲۶۷)

علم کو بند کرو۔ عرض کیا گیا کیسے بند کریں؟ فرمایا کتابت سے۔

دوسری روایت میں ہے:

قیدوا العلم بالکتابۃ۔ (بحار ۵۸: ۱۲۴)

علم کو کتابت کے ذریعے محفوظ کرو۔

مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورۃ ن آیت نمبر۱۔

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک سو سال تک حدیث کی کتابت پر پابندی عائد رہی جس کی وجہ سے علم کے بہت بڑے ذخیرے سے امت محروم رہی۔

البتہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار اس ذخیرے سے محروم نہیں رہے چونکہ ان کے ہاں عہد رسالت میں حدیث کی تدوین مکمل ہو گئی تھی۔ چنانچہ حدیث کی یہ تدوین باملاء من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بخط علی علیہ السلام (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی املاء اور علی علیہ السلام کے خط سے) مکمل ہو گئی تھی یہ کتاب علی کے نام سے مشہور ہے جس میں تمام احکام اور آنے والے واقعات تک درج ہیں اور یہ کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علمی میراث کے طور پر تمام ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے پاس موجود رہی ہے۔ ( بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد ع ۱: ۱۶۵ باب ۱، ح ۱۱ )

۴۔ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ: انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی کہ وہ علم حاصل کرے:

وَ اللّٰہُ اَخۡرَجَکُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا۔۔۔۔ (۱۶ نحل: ۷۸)

اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔

یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اب انسان بہت کچھ جاننے لگا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے ودیعت شدہ صلاحیت کی وجہ سے ہے۔ ممکن ہے اس آیت کا اشارہ قلم کے علاوہ دیگر ذرائع تعلیم کی طرف ہو جیسے سمعی ذرائع ہیں۔


آیات 3 - 5