مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ وہاں ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امین ہیں۔

وَ مَا صَاحِبُکُمۡ بِمَجۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۲﴾

۲۲۔ اور تمہارا رفیق (محمدؐ) دیوانہ نہیں ہے۔

وَ لَقَدۡ رَاٰہُ بِالۡاُفُقِ الۡمُبِیۡنِ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ اور انہوں نے اس (فرشتہ) کو روشن افق پر دیکھا ہے۔

23۔ یعنی رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کو روشن افق پر دیکھ لیا ہے۔ ممکن ہے مراد یہ ہو کہ افق اعلیٰ میں جبرئیل علیہ السلام کو اپنی مقتدر حیثیت میں دیکھ لیا ہے۔ اس دیکھنے کی حقیقت حسی روئیت کی طرح نہیں تھی، بلکہ اس حقیقت کو رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے پورے وجود کے ساتھ دیکھ لیا جیسا کہ سورئہ نجم میں فرمایا: مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی (نجم: 11) یہاں قلب و بصر دونوں کی متفقہ روئیت تھی۔

وَ مَا ہُوَ عَلَی الۡغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴﴾

۲۴۔ اور وہ غیب (کی باتیں پہنچانے) میں بخیل نہیں ہے۔

24۔ انبیاء علیہم السلام اس بات میں معصوم ہیں کہ وہ غیب کی باتیں چھپا کر نہیں رکھتے۔

وَ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ اور یہ (قرآن) کسی مردود شیطان کا قول نہیں ہے۔

فَاَیۡنَ تَذۡہَبُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾

۲۶۔ پھر تم کدھر جا رہے ہو؟

اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ یہ تو سارے عالمین کے لیے بس نصیحت ہے،

لِمَنۡ شَآءَ مِنۡکُمۡ اَنۡ یَّسۡتَقِیۡمَ ﴿ؕ۲۸﴾

۲۸۔ تم سے ہر اس شخص کے لیے جو سیدھی راہ چلنا چاہتا ہے۔

وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ اور تم صرف وہی چاہ سکتے ہو جو عالمین کا رب اللہ چاہے۔