آیات 20 - 21
 

ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ جو قوت کا مالک ہے، صاحب عرش کے ہاں بلند مقام رکھتا ہے۔

مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ وہاں ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امین ہیں۔

تفسیر آیات

اس کے بعد اس رسول فرشتے کا مقتدر ہونا اوراس کے دیگر اوصاف بیان کیے ہیں۔ یہ بتلانے کے لیے کہ قرآن کو اس فرشتے کی زبان پر کیوں جاری کیا گیا:

کَرِیۡمٍ: یہ فرشتہ کریم، قابل ستائش ہے۔ صفات حمیدہ کا حامل ہونے کی وجہ سے۔

ii۔ ذِیۡ قُوَّۃٍ: ایک قوت و طاقت کا مالک ہے۔ یہ قوت صاحب عرش کے نزدیک ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ عرش سرچشمۂ علم و قدرت ہے۔

iii۔ مَکِیۡنٍ: یہ لفظ مکُن سے صفت مشبہ ہے۔ عظیم مرتبہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

iv۔ مُّطَاعٍ ثَمَّ: لفظ ثَمَّ دَور کے اشارے کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی جبرئیل کی عالم بالا میں فرماں برداری ہوتی ہے۔ اپنے زیر فرمان فرشتوں کو جو حکم صادر کرتے ہیں اس کی اطاعت ہوتی ہے۔ یعنی عالم بالا میں جبرئیل کی سرداری ہے۔

v۔ اللہ کی طرف سے وحی پہنچانے میں امین ہیں۔ کسی قسم کی خیانت اور خلاف ورزی کا یہاں تصور نہیں ہے۔

جبرئیل کے یہ اوصاف، یہ بتانے کے لیے بیان ہوئے ہیں کہ وحی ایک مضبوط اور مستحکم ذریعے سے نازل ہوتی ہے۔ وحی لانے والا قابل ستائش ہے۔ کسی قسم کا نقص نہیں ہے۔ طاقتور ہے۔ کسی شیطانی طاقت کی زد میں آنا ممکن نہیں ہے۔ مطاع فرماں روا ہے۔ اکیلا نہیں۔ امین ہے۔ خیانت کا تصور نہیں ہے۔


آیات 20 - 21