وَ اِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتۡ ﴿۪ۙ۱۱﴾

۱۱۔ اور جب آسمان اکھاڑ دیا جائے گا،

وَ اِذَا الۡجَحِیۡمُ سُعِّرَتۡ ﴿۪ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی،

وَ اِذَا الۡجَنَّۃُ اُزۡلِفَتۡ ﴿۪ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور جب جنت قریب لائی جائے گی،

13۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے: وَّ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتۡ اَبۡوَابًا (نباء:19) آسمان کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ اس آیت میں فرمایا کہ جنت قریب لائی جائے گی۔یعنی مسافتیں سمٹ جائیں گی۔ وہاں زمان و مکان کا وہ تصور نہ ہو گا جو اس دنیا میں ہے۔

عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّاۤ اَحۡضَرَتۡ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ اس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔

14۔ جہاں اعمال کی قیمت لگ جائے گی، وہاں انسان کو علم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔ اس آیت اور دیگر آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کا خود عمل حاضر ہو جائے گا، پھر اس کی قیمت لگے گی۔

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالۡخُنَّسِ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ نہیں! میں قسم کھاتا ہوں پس پردہ جانے والے ستاروں کی،

15۔ الۡخُنَّسِ : سکڑنا اور چھپ جانے کے معنوں میں ہے۔

الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ جو روانی کے ساتھ چلتے ہیں اور چھپ جاتے ہیں،

16۔ الۡجَوَارِ : تیزی سے چلنے والی شئ۔

الۡکُنَّسِ : چھپ جانا۔ اشارہ ستاروں کی طرف ہے۔

عَسۡعَسَ : رات کے آخری اور ابتدائی حصے میں، جن میں تاریکی کم ہوتی ہے۔

وَ الَّیۡلِ اِذَا عَسۡعَسَ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور قسم کھاتا ہوں رات کی جب وہ جانے لگتی ہے،

وَ الصُّبۡحِ اِذَا تَنَفَّسَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اور صبح کی جب وہ پھوٹتی ہے،

اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ کہ یقینا یہ (قرآن) معزز فرستادہ کا قول ہے۔

19۔ اس رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں جو صاحب عرش یعنی اللہ کے نزدیک بڑا مقام رکھتے ہیں اور آسمان میں ان کی بات مانی جاتی ہے۔ یعنی فرشتے ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ جس کی عالم بالا میں حکومت چلتی ہو اس کو رسول اعظم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیغام لے جانے کی ذمہ داری سونپنا رسول اعظم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت اور کائنات میں اس رسالت کی عظمت کی دلیل ہے۔

ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ جو قوت کا مالک ہے، صاحب عرش کے ہاں بلند مقام رکھتا ہے۔