آیات 15 - 19
 

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالۡخُنَّسِ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ نہیں! میں قسم کھاتا ہوں پس پردہ جانے والے ستاروں کی،

الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ جو روانی کے ساتھ چلتے ہیں اور چھپ جاتے ہیں،

وَ الَّیۡلِ اِذَا عَسۡعَسَ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور قسم کھاتا ہوں رات کی جب وہ جانے لگتی ہے،

وَ الصُّبۡحِ اِذَا تَنَفَّسَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اور صبح کی جب وہ پھوٹتی ہے،

اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ کہ یقینا یہ (قرآن) معزز فرستادہ کا قول ہے۔

تشریح کلمات

الخنس:

( خ ن س ) کے معنی پیچھے ہٹنے اور سکڑ جانے کے ہیں۔ اسی سے شیطان کو خناس کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ذکر الٰہی سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

الۡجَوَارِ:

( ج ر ی ) تیزی سے چلنے والی شے۔

الۡکُنَّسِ:

( ک ن س ) چھپ جانے کے معنوں میں ہے۔

عَسۡعَسَ:

( ع س ع س ) کے معنی تاریکی ہلکی ہونے کے ہیں۔ رات کے آخری اور ابتدائی وقت میں تاریکی کم ہوتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَاۤ اُقۡسِمُ: میں لا برائے تاکید قسم ہے۔ بعض کہتے ہیں زائدہ ہے لیکن بعید ہے کلام خدا میں کوئی لفظ بلا معنی مذکور ہو۔

یہ تین الفاظ الۡخُنَّسِ، الۡجَوَارِ اور الۡکُنَّسِ بنا بر بعض روایات ستاروں کے بارے میں ہیں جو رات کو نمایاں اور دن کو چھپ جاتے ہیں اور ہر ستارہ اپنے فلک میں رواں دواں ہوتا ہے۔

اس کے بعد مظاہر کائنات، صبح و شب کی قسم کھائی۔ اس بات کی طرف اشارہ کے لیے کہ آنے والا مضمون اہمیت کا حامل ہے۔

۲۔ اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ: یہ قرآن معزز فرستادہ کا قول ہے۔ اس آیت میں رسول کریم سے مراد جبرئیل امین ہیں۔ قرآن کو جبرئیل کا قول قرار دیا چونکہ وہ اللہ کی طرف سے امین وحی ہیں۔ فرشتے اپنے ارادے میں مستقل نہیں ہوتے۔ ہم نے سورہ نازعات آیت۵ کے ذیل میں بیان کیا ہے فرشتے قدرتی اسباب کی طرح ہیں۔ ان کے فرائض مقرر، متعین اور غیر قابل تغییر ہیں۔ فرشتے اپنا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ وہ اللہ کے ارادے کے تابع ہیں، جس طرح کاتب کے ہاتھ میں قلم ہے۔ یہاں بالترتیب چند اسباب ہیں۔ قلم، ہاتھ، ارادۂ انسان۔ ارادہ انسان کا ہے، ہاتھ اور قلم ارادۂ انسان کے آلہ کار ہیں۔ لہٰذا لکھنے کے عمل کی قلم کی طرف نسبت درست ہے۔ میرے قلم نے لکھا۔ ہاتھ کی طرف نسبت دینا بھی صحیح ہے۔ میرے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ خود انسان کی طرف نسبت دینا درست ہے۔ اسی طرح قرآن کو کلام خدا کہنا درست ہے اور کلام جبرئیل کہنا بھی درست ہے چونکہ جبرئیل اللہ کے کارندہ ہیں جس طرح قلم انسان کا آلہ کار ہے۔

جیسا کہ قبض روح کو اللہ اپنی طرف نسبت دیتا ہے:

اَاَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا۔۔۔۔ (۳۹ زمر: ۴۲)

موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے۔

اور کبھی فرشتۂ موت کی طرف نسبت دیتا ہے:

قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمۡ۔۔۔۔ (۳۲ سجدہ: ۱۱)

کہدیجیے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے۔


آیات 15 - 19