کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾

۱۱۔ (ایسا درست) ہرگز نہیں! یہ (آیات) یقینا نصیحت ہیں۔

11۔ اس نصیحت سے مراد قرآن ہے۔

فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲﴾

۱۲۔ پس جو چاہے! انہیں یاد رکھے ۔

فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ یہ محترم صحیفوں میں ہیں۔

13۔ یعنی یہ قرآن ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں۔ اس آیت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قرآن ارضی صحیفوں سے پہلے ملکوتی صحیفوں میں مدون ہو چکا تھا۔

مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ جو بلند مرتبہ، پاکیزہ ہیں۔

بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ یہ ایسے (فرشتوں کے) ہاتھوں میں ہیں

15۔ یہ تدوین ایسے فرشتوں کے ہاتھوں انجام پائی ہے جو عزت والے اور نیک ہیں۔

کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ جو عزت والے، نیک ہیں۔

قُتِلَ الۡاِنۡسَانُ مَاۤ اَکۡفَرَہٗ ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ ہلاکت میں پڑ جائے یہ انسان، یہ کس قدر ناشکرا ہے۔

مِنۡ اَیِّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ ﴿ؕ۱۸﴾

۱۸۔ (یہ نہیں سوچتا کہ) اسے اللہ نے کس چیز سے بنایا ہے؟

مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ؕ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ نطفے سے بنایا ہے پھر اس کی تقدیر بنائی،

19۔ خلقت کے بعد تقدیر یعنی ایک نظام میں پابند کر دینے کا عمل انجام پایا۔ اس نظام کے تحت انسان کی رہنمائی بھی اسی فطرت و جبلت میں ودیعت ہوئی جسے اگلی آیت میں بیان فرمایا: ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ یہ فطرت کا راستہ ہے جو ہر ایک کے لیے میسر ہے۔

ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ پھر اس کے لیے راستہ آسان بنا دیا۔