ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقۡبَرَہٗ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ پھر اسے موت سے دوچار کیا پھر اسے قبر میں پہنچا دیا۔

ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنۡشَرَہٗ ﴿ؕ۲۲﴾

۲۲۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھالے گا۔

17 تا 22۔ یہ لفظ اظہار نفرت کے لیے استعمال ہوا ہے جیسے ہم مردہ باد کہتے ہیں۔ اس کے بعد کلمہ تعجب استعمال ہوا ہے کہ انسان کس قدر منکر حق ہے! ایک حقیر بوند سے پیدا ہونے والی یہ مخلوق اپنی تقدیر کی مالک نہیں ہے۔ یعنی بہت سی باتوں میں یہ بے بس ہے۔ اپنے اوصاف و خصلت، موت و حیات اور آفت و مرض وغیرہ میں مقید اور محدود ہونے کے باوجود انکار کی یہ حالت؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے راہ ہدایت کا حصول آسان بنا دیا۔ پھر چند روز روئے زمین پر چلنے پھرنے کے بعد اس قدر بے بس کہ زمین میں دفن ہو جاتا ہے، پھر جواب طلبی کے لیے اٹھایا جاتا ہے۔ اس قدر بے بس انسان اس قدر منکر؟

کَلَّا لَمَّا یَقۡضِ مَاۤ اَمَرَہٗ ﴿ؕ۲۳﴾

۲۳۔ ہرگز نہیں! اللہ نے جو حکم اسے دیا تھا اس نے اسے پورا نہیں کیا۔

فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖۤ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ پس انسان کو اپنے طعام کی طرف نظر کرنی چاہیے،

24۔ خاک کا سینہ شق کر کے اللہ کس طرح انسان کے لیے طعام کا انتظام فرماتا ہے۔ پہلے اس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے جس سے زمین کی روئیدگی بیدار ہو جاتی ہے اور دانہ شق ہو کر پھلتا پھولتا ہے۔ پھر مختلف دانے اور میوے فراہم ہوتے ہیں۔

اَنَّا صَبَبۡنَا الۡمَآءَ صَبًّا ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ کہ ہم نے خوب پانی برسایا،

ثُمَّ شَقَقۡنَا الۡاَرۡضَ شَقًّا ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ پھر ہم نے زمین کو خوب شگافتہ کیا،

26۔ انسان اتنا کر سکتا ہے کہ دانے کو زمین کے اندر پہنچا دے، لیکن زمین کو شق کر کے مختلف پھلوں اور دانوں کا نکالنا اللہ کا کام ہے۔

فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا حَبًّا ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ پھر ہم نے اس میں دانے اگائے،

وَّ عِنَبًا وَّ قَضۡبًا ﴿ۙ۲۸﴾

۲۸۔ نیز انگور اور سبزیاں،

وَّ زَیۡتُوۡنًا وَّ نَخۡلًا ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ اور زیتون اور کھجوریں،

وَّ حَدَآئِقَ غُلۡبًا ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ اور گھنے باغات،