آیات 15 - 16
 

بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ یہ ایسے (فرشتوں کے) ہاتھوں میں ہیں

کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ جو عزت والے، نیک ہیں۔

تشریح کلمات

سَفَرَۃٍ:

السَّفر اصل میں پردہ اٹھانے کے معنوں میں ہے۔ السِّفر کتاب کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع اسفار ہے۔ اسی سے فرستادہ کو سفیر کہتے ہیں جو مُرْسِل کی غرض مرسل الیہ پر کھولتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یہ قرآن ایسے فرشتوں کے ہاتھوں میں ہے جو اللہ اور انبیاء علیہم السلام کے درمیان سفارت کا کام کرتے ہیں۔ یعنی یہ کلام اللہ جب اللہ تعالیٰ سے صادر ہوتا ہے اور فرشتہ ہائے وحی کے سپرد ہو جاتا ہے تو وہ اسے انبیاء علیہم السلام تک پہنچا دیتے ہیں:

لَا یَسۡبِقُوۡنَہٗ بِالۡقَوۡلِ وَ ہُمۡ بِاَمۡرِہٖ یَعۡمَلُوۡنَ﴿﴾ (۲۱ انبیاء: ۲۷)

وہ تو اللہ (کے حکم) سے پہلے بات (بھی) نہیں کرتے اور اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

سَفَرَۃٍ سے مراد سفیر لینا ہی مناسب ہے چونکہ فرشتے پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں:

اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ۔۔۔۔ (۲۲ حج: ۷۵)

اللہ فرشتوں اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والا منتخب کرتا ہے۔

بعض مترجمین اور مفسرین نے سَفَرَۃٍ سے مراد کاتبین لیے ہیں جس کا سیاق آیت سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس سے بھی بعید تر ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے مراد قارئین و کاتبین قرآن ہیں۔ اس نظریہ کی نفی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں فرمایا:

مثل الذی یقرء القرآن و ھو حافظ لہ مع السفرۃ الکرام البررۃ۔ (صحیح بخاری)

جو قرآن کی قرائت کرتا ہے اور وہ اس کے (احکام) کی حفاظت بھی کرتا ہے وہ سفرۃ الکرام البررۃ کے ساتھ ہو گا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

الحافظ للقرآن و العامل بہ مع السفرۃ الکرام البررۃ۔ (مجمع البیان)

جو قرآن حفظ کرتا اور اس پر عمل کرتا ہے وہ ان کے ساتھ ہو گا جو سفرۂ کرام سے متصف ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ خود سفرہ کرام نہیں ہیں۔

۲۔ کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ: یہ سفیران وحی، کرام یعنی قابل ستائش، عزت والے ہیں۔ بَرَرَۃٍ نیکی کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے بلکہ فراوان اور وسیع نیکی کرنے والے ہیں۔ چونکہ بّرٌ میں وسعت کے معنی پائے جاتے ہیں۔


آیات 15 - 16