اَمۡ عِنۡدَہُمُ الۡغَیۡبُ فَہُمۡ یَکۡتُبُوۡنَ ﴿ؕ۴۱﴾

۴۱۔ یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے وہ لکھتے ہوں؟

اَمۡ یُرِیۡدُوۡنَ کَیۡدًا ؕ فَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہُمُ الۡمَکِیۡدُوۡنَ ﴿ؕ۴۲﴾

۴۲۔ کیا یہ لوگ فریب دینا چاہتے ہیں؟ کفار تو خود فریب کا شکار ہو جائیں گے۔

42۔ یہ ابتدائے دعوت کے دنوں کی بات ہے جب مسلمان نہایت ہی نامساعد حالات سے دو چار ایک چھوٹی سی بے سر و سامان جماعت پر مشتمل تھے۔ اس وقت کی پیشگوئی ہے کہ مخالفین اس دعوت کو ناکام کرنے کے لیے جو بھی سازش اور تدبیر کریں گے اس کا الٹا اثر انہی کافروں کے خلاف ظاہر ہو گا۔

اَمۡ لَہُمۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ یا ان کا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ اللہ اس شرک سے پاک ہے جو یہ کرتے ہیں۔

وَ اِنۡ یَّرَوۡا کِسۡفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوۡلُوۡا سَحَابٌ مَّرۡکُوۡمٌ﴿۴۴﴾

۴۴۔ اور اگر یہ لوگ آسمان سے (عذاب کا) کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھ لیں تو کہیں گے: یہ تو سنگین بادل ہے۔

فَذَرۡہُمۡ حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ فِیۡہِ یُصۡعَقُوۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ پس آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ یہ اپنا وہ دن دیکھ لیں جس میں ان کے ہوش اڑ جائیں گے۔

45۔ سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ کسی کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔ وہ ذات ہاتھ اٹھا لے، جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔

یَوۡمَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ کَیۡدُہُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿ؕ۴۶﴾

۴۶۔ اس دن نہ ان کی تدبیر ان کے کسی کام آئے گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔

وَ اِنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا عَذَابًا دُوۡنَ ذٰلِکَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور ظالموں کے لیے اس (عذاب) کے علاوہ بھی یقینا عذاب ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

47۔ یعنی عذاب آخرت کے علاوہ بھی عذاب ہے۔ لفظ میں عمومیت ہے، یعنی غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں کے لیے آخرت کے علاوہ دنیا میں عذاب آ سکتا ہے۔قبر کا عذاب مراد ہو سکتا ہے، اس عذاب سے مراد مسلمانوں کے ہاتھوں شکست ہو سکتی ہے۔

وَ اصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ ﴿ۙ۴۸﴾

۴۸۔ اور آپ اپنے رب کے حکم تک صبر کریں، یقینا آپ ہماری نگاہوں میں ہیں اور جب آپ اٹھیں تو اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کریں۔

48۔ جس طرح کسی کو اپنے حال پر چھوڑنا سب سے بڑی سزا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ فرمانا فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا کہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں، سب سے بڑی عنایت ہے۔

وَ مِنَ الَّیۡلِ فَسَبِّحۡہُ وَ اِدۡبَارَ النُّجُوۡمِ﴿٪۴۹﴾

۴۹۔ اور رات کے بعض حصوں میں اور ستاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی اپنے رب کی تسبیح کریں۔

49۔ وَ اِدۡبَارَ النُّجُوۡمِ : جب صبح کی روشنی سے ستارے چھپ جاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد نماز فجر سے پہلے کی دو رکعت ہیں۔

حِیۡنَ تَقُوۡمُ : جب آپ اٹھیں۔ یعنی رات کو تہجد کے لیے اٹھیں تو تسبیح پڑھیں۔