آیات 44 - 46
 

وَ اِنۡ یَّرَوۡا کِسۡفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوۡلُوۡا سَحَابٌ مَّرۡکُوۡمٌ﴿۴۴﴾

۴۴۔ اور اگر یہ لوگ آسمان سے (عذاب کا) کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھ لیں تو کہیں گے: یہ تو سنگین بادل ہے۔

فَذَرۡہُمۡ حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ فِیۡہِ یُصۡعَقُوۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ پس آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ یہ اپنا وہ دن دیکھ لیں جس میں ان کے ہوش اڑ جائیں گے۔

یَوۡمَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ کَیۡدُہُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿ؕ۴۶﴾

۴۶۔ اس دن نہ ان کی تدبیر ان کے کسی کام آئے گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔

تشریح کلمات

کِسۡفًا:

( ک س ف ) الکسفۃ کے معنی بادل، روئی یا اس قسم کے دوسرے سوراخ دار اجسام کے ٹکڑوں کے ہیں۔ اہل لغت نے کہا ہے: صَاعِقَۃٌ کی تین قسمیں ہیں: اول بمعنی موت۔ دوم بمعنی عذاب۔ سوم بمعنی آگ اور بجلی کی کڑک لیکن تینوں قسمیں صَاعِقَۃٌ کے آثار ہیں۔

یُصۡعَقُوۡنَ:

( ص ع ق ) الصاعقۃ یعنی ہولناک دھماکہ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنۡ یَّرَوۡا کِسۡفًا: ان کی ہٹ دھرمی اور عناد کا یہ عالم ہے کہ وہ محسوسات تک کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اگر بالفرض یہ لوگ آسمان سے عذاب کا ٹکڑا گرتے ہوئے دیکھ بھی لیں تو وہ اسے عذاب تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے بلکہ کہیں گے: یہ تو سنگین بادل ہے۔ اس طرح یہ لوگ کسی بھی معجزے کو تسلیم کرنے کے لیے حاضر نہیں ہیں۔

۲۔ فَذَرۡہُمۡ: آپ ان مشرکوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔ ناقابل ہدایت، ہٹ دھرم منکرین کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ وہ ذات ان سے ہاتھ اٹھا لے جس کے پاس سب کچھ ہے تو وہ سب کچھ سے محروم رہ جائیں گے۔

۲۔ حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ: اس دن کے آنے تک جس میں وہ عذاب کا سامنا کریں گے۔ وہ دن ان کی موت کا دن ہو گا۔ موت ہی کے دن ان کی ابدی قسمت کا فیصلہ سنا دیا جائے گا اور جس عذاب کے یہ منکر تھے اسے چکھنا شروع کر دیں گے۔

۳۔ یَوۡمَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ کَیۡدُہُمۡ: وہ ان کی نہایت بے بسی کا دن ہو گا۔ اس دن اگر کوئی مدد کرنے والا ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس سے یہ لوگ مربوط نہیں رہے۔ اس کی بندگی سے دور رہے لہٰذا آج ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔


آیات 44 - 46