مؤمن آپس میں مہربان ہیں


مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ان کے یہی اوصاف ہیں، جیسے ایک کھیتی جس نے (زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے، ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

29۔ اس آیت میں رسول اسلام ﷺ کے ساتھیوں کے پانچ اہم ایسے اوصاف بیان ہوئے ہیں جن کی مثال دوسری آسمانی کتابوں میں بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہم عصر مسلمانوں میں سے جن ہستیوں میں یہ اوصاف موجود ہوں، ان کے لیے یہ بہت بڑی فضلیت ہے۔ یہ ایسی فضلیت ہے جس کے لیے خود اللہ اجر عظیم کا صریح وعدہ فرما رہا ہے۔ یہ وعدہ ان لوگوں کے لیے ہے جو رسول اللہ ﷺ کی معیّت میں ہیں۔ معیّت اور صحبت میں فرق ہے۔ صحبت ایک جگہ ساتھ پائے جانے کو کہتے ہیں، جبکہ معیّت ایک مشن ایک تحریک میں ہر قدم پر ساتھ دینے کو کہتے ہیں۔ چنانچہ ان ربی یصاحبنی نہیں کہتے بلکہ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ کہتے ہیں، اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کہتے ہیں، چونکہ اللہ ہر قدم پر ساتھ ہوتا ہے اور وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ (مزمل:20) اور ایک جماعت جو آپ کے ساتھ ہے۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ سورہ توبہ آیت 40 میں فرمایا: اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۔ اس میں ساتھی کے لیے صاحبہ اور اللہ کے لیے مَعَنَا کہا۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کو ایک ساتھی کی صحبت اور اللہ کی معیّت حاصل تھی۔ وہ لوگ جو ہر میدان میں رسول ﷺ کے ساتھ نہیں رہے اور جنہوں نے میدان جنگ میں ایک کافر کو بھی نہیں مارا نیز جو آپس میں نہایت تند مزاجی سے پیش آئے ہوں، وہ لوگ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں۔ اس آیت مبارکہ سے وہ موضوعاً خارج ہیں، جن پر یہ آیت صادق آتی ہے، ان پر طعن، قرآن کی نص صریح کے خلاف ہے۔ اس کا کوئی مسلمان مرتکب نہیں ہو سکتا اور جن پر یہ آیت صادق نہیں آتی ان کو آیت سے خارج سمجھنا طعن نہیں ہے۔ چنانچہ اَصۡحٰبُ اُفِکَ میں بدری بھی شامل ہیں، جن کی سورہ نور آیت 23 میں بھرپور مذمت ہے۔ ولید بن عتبہ بھی صحابی ہے۔ سورہ حجرات آیت 6 میں اسے فاسق کہا ہے۔ اس بنا پر وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ میں معیّت مراد لینا ہو گا، صحبت نہیں۔ اسی لیے اول تو مِّنَ برائے تبعیض ہے، چونکہ مِّنَ بیانیہ ضمیر پر داخل نہیں ہوتا، ثانیاً اس مِّنَ سے ہٹ کر خود قرآنی دیگر آیات اور تاریخی شواہد اس استثنا پر قطعی شاہد ہیں۔

لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ : تاکہ ان کی نشو و نما کفار کو جلائے۔ جن پر کفار جلتے ہیں ان کی رسول سے معیت ثابت ہوتی ہے۔ نہ مطلق جلنا، بلکہ رسول ﷺ کی ہر قدم میں معیت کی وجہ سے جلنا۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی لوگ ان پر جلتے ہوں، وہ کافر ثابت ہو جائیں۔ اصحاب ایک دوسرے پر نہ صرف جلتے تھے، مقاتلہ تک کی نوبت آتی تھی۔ اگر کسی صحابی پر جلنے والا کافر ہوتا ہے تو اس کی زد میں عصر معاویہ سے عصر عمر بن عبد العزیز تک ساری امت آ جاتی ہے۔ اس نکتے کی طرف متوجہ ہو کر مفسر تھانوی نے لکھا ہے: صحابہ پر کافروں کے ذی غیظ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو بھی صحابہ پر ذی غیظ ہو وہ کافر ہے۔