نصرت الٰہی کی دو اہم شرائط


وَ لَوۡ قٰتَلَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوَلَّوُا الۡاَدۡبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور اگر کفار تم سے جنگ کرتے تو پیٹھ دکھا کر فرار کرتے، پھر وہ نہ کوئی کارساز پاتے اور نہ مددگار۔

22۔ اگر جنگ کافروں اور مسلمانوں میں ہو رہی ہے تو اس صورت میں اللہ کی طرف سے فتح کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کی مادی و روحانی طاقت پر موقوف ہے۔ اگر جنگ کفر و اسلام میں ہو اور مسلمانوں سے بھی کوئی جنگی خیانت سرزد نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں اللہ کی طرف سے فتح کی ضمانت ہے۔

سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلُ ۚۖ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا﴿۲۳﴾

۲۳۔ اللہ کے دستور کے مطابق جو پہلے سے رائج ہے اور آپ اللہ کے دستور میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

23۔ یہ الٰہی دستور و قانون ہے۔ تمام امتوں کے لیے رائج ہے۔ چنانچہ بدر میں مسلمانوں سے کوئی جنگی خیانت سرزد نہیں ہوئی تو اسلام کے ایک بے سر و سامان چھوٹے سے لشکر کو کفر کی بڑی طاقت پر فتح بھی دے دی گئی۔