آیت 33
 

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ لَمۡ یَعۡیَ بِخَلۡقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیِۦَ الۡمَوۡتٰی ؕ بَلٰۤی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۳۳﴾

۳۳۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو خلق فرمایا ہے اور جو ان کے خلق کرنے سے عاجز نہیں آیا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے؟ ہاں! وہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے۔

تشریح کلمات

یَعۡیَ:

( ع ی ی ) العی عاجز آنے کے معنوں میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: و قد عیّ عن حجتہ عیًّا وہ دلیل قائم کرنے سے عاجز رہ گیا۔ ( الۡعَیۡنِ ) الداء العیاء اس بیماری کو کہتے ہیں جس کا علاج نہ ہو۔ قرآن میں اسی معنوں میں استعمال ہوا ہے:

اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ۔۔۔ (۵۰ق: ۱۵)

کیا ہم پہلی بار کی تخلیق سے عاجز آ گئے تھے؟

یعنی جو ذات ایک بیکراں کائنات کو عدم سے وجود میں لانے پر قادر ہے وہ اس موجود انسان کو دوبارہ وجود میں لا سکتی ہے۔ اس آیت کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یٰسٓ آیت ۸۱

تفسیر آیات

اس آیت میں العیُّ کے معنی میں تھک جانے کے بھی کیے جاتے ہیں۔ ہم نے عاجز ہونے کے معنی مراد لیے ہیں۔ لغت کے اعتبار سے بھی یہ لفظ عاجز ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور مشرکین حیات بعد موت کے امکان کے منکر تھے یعنی اللہ کو عاجز تصور کرتے تھے۔ جو لوگ العیّ کو تھکاوٹ کے معنی میں لیتے ہیں وہ کہتے ہیں: اس سے یہود کی رد مراد ہے جو کہتے ہیں: خدا چھ دنوں میں کائنات کی تخلیق کے بعد تھک گیا تھا۔ یہ معنی سیاق آیت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے چونکہ آیت مشرکین کی رد میں ہے، اہل کتاب کی رد میں نہیں ہے۔


آیت 33