معجزہ اور فطری خواہش


وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُبۡرِیٴُ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾

۴۹۔ اور (وہ) بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول کی حیثیت سے (کہے گا:) میں تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر تمہارے پاس آیا ہوں، (وہ یہ کہ) میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو تندرست اور مردے کو زندہ کرتا ہوں اور میں تم لوگوں کو بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں کیا جمع کر کے رکھتے ہو، اگر تم صاحبان ایمان ہو تو اس میں تمہارے لیے نشانی ہے۔

49۔ سورہ بقرہ آیت 60 کے ذیل میں اس موضوع پر ہم نے مختصراً لکھا ہے کہ معجزات، طبیعی قوانین کی عام دفعات کے تحت نہیں ہوتے، ورنہ یہ سب کے لیے قابل تسخیر ہوتے اور معجزہ نہ ہوتا۔ معجزہ اس وقت معجزہ ہوتا ہے جب یہ سطحی اور ظاہری علل و اسباب کے سلسلے کو توڑ دے۔ البتہ معجزے کے اپنے علل و اسباب ضرور ہوتے ہیں جو ہر ایک کے لیے قابل تسخیر نہیں ہوتے۔ لہٰذا معجزات کے علل و اسباب کو قانونِ طبیعت کی عام دفعات میں تلاش کرنا انکار معجزہ کے مترادف ہے۔ جیسا کہ صاحب ”المنار“ نے کوشش کی ہے۔

اَخۡلُقُ لَکُمۡ : خلق متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے: ٭ خلق ابداعی یعنی عدم سے وجود میں لانا۔ یہ بات صرف ذاتِ خداوندی کے ساتھ مخصوص ہے۔ ٭ خلق تشکیلی یعنی ایک شے سے دوسری شے بنانا۔ ٭ خلق تقدیری یعنی اندازہ کرنا۔ خلق ان دو معنوں میں غیر اللہ کے ساتھ بھی متصف ہو سکتا ہے۔

ولایت تکوینی: انبیاء اور اولیاء علیہم السلام اظہار حجت و اثبات حق کے لیے باذن خدا عالم خلقت کے تکوینی امور میں تصرف کرتے ہیں۔وہ مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور شق القمر کرتے ہیں نیز بوقت ضرورت دیگر معجزات رکھتے ہیں جو عالم تخلیق و تکوین سے مربوط ہیں۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ یہ تصرف اور اختیار اللہ کے تصرف کے مقابلے میں نہیں بلکہ اللہ کے تصرف و اختیار کے ذیل میں آتا ہے۔ اس قسم کے تصرفات کے ساتھ عام طور پر باذن اللہ کا ذکر آتا ہے۔