آیت 47
 

قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۴۷﴾

۴۷۔ مریم نے کہا: میرے رب! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا؟ مجھے تو کسی شخص نے چھوا تک نہیں، فرمایا: ایسا ہی ہو گا اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے، جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ: یہ استفہام از باب تعجب ہے یا حقیقت جاننا چاہتی ہیں کہ کیا کسی بشر کے چھونے کے بعد بچہ ہو گا یا بطور اعجاز ہو گا۔ جواب میں فرمایا: بطور خاص اعجازہو گا۔

بغیر باپ کے بچہ خلق کرنا اللہ کے لیے تو ایسا ہی ہے جیسے باپ کے ذریعے بچہ پیدا کرنا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ چیزوں کو وسائل و آلات کے ذریعے پیدا نہیں کرتا کہ کچھ کام اس کے لیے آسان، کچھ مشکل یا کچھ ناممکن ہوں، بلکہ ہر جگہ اس کا ارادہ چلتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی چیز کے خلق کرنے پر اس کا کاف و نون بھی خرچ نہیں ہوتا۔ آیات میں استعمال شدہ کُنۡ کا لفظ تو خدائی ارادے کی وضاحت کے لیے ایک تعبیر ہے۔ اس آیت کی مزید تفسیر سورۂ بقرہ آیہ ۱۱۷ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

احادیث

باب مدینۃ العلم مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:

یَقُوْلُ لِمَنْ أَرَادَ کَوْنَہٗ: کُنْ فَیَکُوْنُ، لَا بِصَوْتٍ یُقْرَعْ وَ لَا بِنِدَائٍ یُسْمَعُ وَ اِنَّمَا کَلَامُہٗ سُبْحَانَہٗ فِعْلٌ مِنْہُ أَنْشَأَہٗ ۔ (نہج البلاغۃ خطبہ ۱۸۴۔ ترجمہ مفتی جعفر حسینؒ۔ طبع امامیہ کتب خانہ۔ لاہور)

جسے پیدا کرنا چاہتا ہے اسے ’’ ہو جا ‘‘ کہتا ہے، جس سے وہ ہو جاتی ہے بغیر کسی آواز کے جو کان (کے پردوں) سے ٹکرائے اور بغیر کسی ایسی صدا کے جو سنی جا سکے، بلکہ اللہ سبحانہ کا کلام بس اس کا ایجاد کردہ فعل ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کا ارادہ کسی عام طبیعی قانون کے تابع نہیں، کیونکہ طبیعی قوانین بھی اسی کے بنائے ہوئے ہیں۔

۲۔ آسان اور مشکل کا تصور مخلوقات کے ہا ں پایا جاتاہے، خالق کے ہاں نہیں۔

۳۔ کُنۡ سے مراد الفاظ نہیں، بلکہ ارادۂ خداوندی ہے۔


آیت 47