آیات 16 - 17
 

فَاۡتِیَا فِرۡعَوۡنَ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں اور (اس سے) کہیں: ہم رب العالمین کے رسول ہیں،

اَنۡ اَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے ۔

تفسیر آیات

۱۔ فرعون کے پاس جا کر پہلے تو اپنی رسالت کا اعلان کرو اور تعبیر یہ اختیار کرو کہ ہم رب العالمین کے رسول ہیں۔ اس تعبیر میں فرعون کے مشرکانہ مذہب کی رد اور توحید کی طرف اشارہ ہے۔

۲۔ دوسرا یہ کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو صدیوں سے غلام بنائے رکھا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بنیادی مقصد بنی اسرائیل کو فرعون کی اسارت سے نجات دلانا تھا۔

۳۔ اِنَّا رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ: اِنَّا جمع اور رسول مفرد ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ دونوں کی رسالت بھی ایک اور بھائی ہونے کی وجہ سے یک جان دو قالب تھے۔

سورہ طٰہ میں تو فرمایا:

فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّکَ فَاَرۡسِلۡ ۔۔۔ (۲۰ طٰہ: ۴۷)

اور کہیں: ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں۔


آیات 16 - 17