آیات 18 - 19
 

قَالَ اَلَمۡ نُرَبِّکَ فِیۡنَا وَلِیۡدًا وَّ لَبِثۡتَ فِیۡنَا مِنۡ عُمُرِکَ سِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ فرعون نے کہا: کیا ہم نے تجھے بچپن میں اپنے ہاں نہیں پالا؟ اور تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں بسر کیے۔

وَ فَعَلۡتَ فَعۡلَتَکَ الَّتِیۡ فَعَلۡتَ وَ اَنۡتَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور تو کر گیا اپنی وہ کرتوت جو کر گیا اور تو ناشکروں میں سے ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ دونوں فرعون کے دربار میں حاضر ہو کر اعلان رسالت کرتے ہیں۔ فرعون موسیٰ علیہ السلام کو پہچان لیتا اور کہتا ہے: تو وہی ہے جسے ہم نے پالا ہے اور تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں بسر کئے؟ کیا اس کا یہ صلہ ہے کہ آج ہمارے دین، عقائد اور ہماری روایات کو یکسر مسترد کر کے کوئی نیا دین، نئے عقائدلے کر آئے ہو؟ ہماری مملکت سے بغاوت کر کے کسی اور معبود کی طرف دعوت دیتے ہو؟

۲۔ وَ فَعَلۡتَ: اور تو نے ہمارے بندے کو قتل کر کے بھی ہمارے احسانات کا اچھا بدلہ دیا۔

۳۔ وَ اَنۡتَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ: اور تو کفران نعمت کرنے والوں میں سے ہو گیا ہے۔ آج نبوت کا دعویٰ کرتا ہے؟ کافر، یہاں کفران نعمت کے معنوں میں ہے۔ بعض کے نزدیک دین فرعونی کے منکر ہونے کی وجہ سے فرعون کے دین کا کافر کہا ہے۔


آیات 18 - 19