وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ سَرِّحُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ ۪ وَ لَا تُمۡسِکُوۡہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعۡتَدُوۡا ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا ۫ وَّ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ الۡکِتٰبِ وَ الۡحِکۡمَۃِ یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿٪۲۳۱﴾ ۞ؓ

۲۳۱۔ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں یا تو شائستہ طریقے سے نکاح میں رکھو یا شائستہ طور پر رخصت کر دو اور صرف ستانے کی خاطر زیادتی کرنے کے لیے انہیں روکے نہ رکھو اور جو ایسا کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا اور تم اللہ کی آیات کا مذاق نہ اڑاؤ اور اللہ نے جو نعمت تمہیں عطا کی ہے اسے یاد رکھو اور یہ (بھی یاد رکھو) کہ تمہاری نصیحت کے لیے اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی اور اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

231۔ جب طلاق کے بعد عدت کا عرصہ ختم ہونے کے قریب آئے تو شوہر کو چاہیے کہ یا تو رجوع کر کے دستور کے مطابق عورت کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لے آئے یا دستور کے مطابق بغیر کسی زیادتی کے اسے رخصت کر دے۔ محض اذیت دینے کے لیے رجوع نہ کرے۔ یعنی طلاق دینے کے بعد عدت گزرنے سے پہلے اگر شوہر محض اس لیے رجوع کرے کہ عورت کسی اور سے شادی بھی نہ کر سکے اور سکون سے اس کے پاس بھی نہ رہ سکے تو شوہر کا یہ عمل عورت کے حق میں ظلم متصور ہو گا، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ اَنۡ یَّنۡکِحۡنَ اَزۡوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوۡا بَیۡنَہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ ذٰلِکَ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکُمۡ اَزۡکٰی لَکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۳۲﴾

۲۳۲۔اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں اپنے (مجوزہ) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ جائز طور پر ازدواج پر باہم راضی ہوں، یہ نصیحت اس شخص کے لیے ہے جو تم میں سے خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، تمہارے لیے نہایت شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے اور (ان باتوں کو) اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

232۔ یہاں خطاب ان تمام اشخاص سے ہے جو طلاق کے بعد عورتوں کے نئے عقد نکاح میں مداخلت کریں، خواہ ولی ہوں یا غیر ولی۔ ارشاد ہوتا ہے: اگر طلاق یافتہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے بعد اپنے سابقہ یا مجوزہ شوہروں سے عقد کرنا چاہیں اور طرفین جائز طریقے سے عقد ثانی پر راضی ہوں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ انہیں روکے۔ یہ معاملہ ان دونوں کی زندگی سے مربوط ہے۔ جب یہ دونوں راضی ہوں تو کسی غیر کو ان کے آزادانہ فیصلے میں دخل دینے کا حق نہیں، خواہ اس کا مقام کچھ بھی ہو۔ جب طرفین عاقل، بالغ اور تجربہ کار ہوں تو ان کی ازدواجی زندگی کے فیصلے انہی پر چھوڑدینا ہی شائستہ و پاکیزہ طریقہ ہے۔ اس حکم سے فردی آزادی کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر سمجھ میں آتا ہے

وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ لَا تُکَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ٭ وَ عَلَی الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰلِکَ ۚ فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡہُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا ؕ وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّاۤ اٰتَیۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۲۳۳﴾

۲۳۳۔اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، (یہ حکم) ان لوگوں کے لیے ہے جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہتے ہیں اور بچے والے کے ذمے دودھ پلانے والی ماؤں کا روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہو گا, کسی پر اس کی گنجائش سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا، بچے کی وجہ سے نہ ماں کو تکلیف میں ڈالا جائے اور نہ باپ کو اس بچے کی وجہ سے کوئی ضرر پہنچایا جائے اور اسی طرح کی ذمے داری وارث پر بھی ہے، پھر اگر طرفین باہمی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہتے ہیں تو اس میں ان پر کوئی مضائقہ نہیں ہے نیز اگر تم اپنی اولاد کو (کسی سے) دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ تم عورتوں کو معمول کے مطابق طے شدہ معاوضہ ادا کرو اور اللہ کا خوف کرو اور جان لو کہ تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نظر ہے۔

233۔ ”مائیں پورے دو سال یعنی چوبیس ماہ دودھ پلائیں“۔ اس جملے میں دو اہم نکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مائیں دودھ پلائیں۔ دوم یہ کہ دو سال تک دودھ پلائیں۔ صدیوں کے تجربات کے بعد آج انسان کو دو باتوں کا پتہ چلا ہے: الف: بچے کے لیے ماں کا دودھ بہترین غذا ہے اور ماں کے دودھ سے مثبت اخلاقی، نفسیاتی، عقلی اور جسمانی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ب: طبی تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ دو سال کے دوران بچے کو فراہم کی جانے والی غذا سے بچے پر اخلاقی، نفسیاتی اور جسمانی و عقلی لحاظ سے ٹھوس اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ رضاعت یعنی دودھ پلانا اور تربیت کرنا ماں کا ایک حق ہے جسے ” حق حضانت “ کہتے ہیں۔ اگر ماں اپنے اس حق سے دستبردار ہو جائے تو دو سال سے کم دودھ پلانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ بچے کی صحت اس بات کی متحمل ہو سکے۔ باپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلانے والی کا خرچہ برداشت کرے۔ یہاں نہ ماں زیادہ مطالبہ کر سکتی ہے اور نہ باپ معمول سے کم پر اکتفا کر سکتا ہے، بلکہ عام دستور کے مطابق اسے کھانا کپڑا وغیرہ فراہم کرنا ہو گا۔ بچے کی تربیت اور رضاعت کے سلسلے میں ماں اور باپ ایک دوسرے کو نقصان اور ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ میاں اور بیوی میں اختلاف اور نزاع ہو جائے تو اس کے برے اثرات بچے کی تربیت پر مترتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا باپ ماں کی مامتا سے نا جائز فائدہ اٹھا کر ماں کو نقصان اور ضرر نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی ماں کو یہ حق حاصل ہے کہ باپ کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے کوئی نقصان پہنچائے۔

باپ کی وفات کی صورت میں وارث پر بھی وہی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو باپ پر عائد تھیں۔ والدین باہمی رضامندی اور باہمی مشورے سے دو سال سے پہلے بچے کا دودھ چھڑا سکتے ہیں۔ رضامندی اور مشورے کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ اگر بچے کی صحت اس بات کی متحمل ہے تو یہ کام جائز ہے۔ دو سال کی حد انتہائی حد ہے۔ دو سال پورے کرنا ہر صورت میں ضروری نہیں بلکہ اگر بچے کی صحت اس بات کی اجازت دے تو دو سال سے پہلے دودھ چھڑانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ماں کی جگہ غیر عورت سے دودھ پلوانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ اسے طے شدہ معاوضہ ادا کیا جائے۔

وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۲۳۴﴾

۲۳۴۔ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں، پھر جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو دستور کے مطابق اپنے بارے میں جو فیصلہ کریں اس کا تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

234۔ غیر اسلامی، باطل اور غیر انسانی مراسم پر خط بطلان کھینچتے ہوئے قرآن اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ عدت پوری ہونے کے بعد عورتیں نئی ازدواجی زندگی کے سلسلے میں جو بھی فیصلہ کریں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح زیبائش اور گھر سے نکلنا وغیرہ بھی جائز ہے۔

وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا عَرَّضۡتُمۡ بِہٖ مِنۡ خِطۡبَۃِ النِّسَآءِ اَوۡ اَکۡنَنۡتُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمۡ سَتَذۡکُرُوۡنَہُنَّ وَ لٰکِنۡ لَّا تُوَاعِدُوۡہُنَّ سِرًّا اِلَّاۤ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ۬ؕ وَ لَا تَعۡزِمُوۡا عُقۡدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡکِتٰبُ اَجَلَہٗ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ﴿۲۳۵﴾٪

۲۳۵۔ اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم ان عورتوں کے ساتھ نکاح کا اظہار اشارے کنائے میں کرو یا اسے تم اپنے دل میں پوشیدہ رکھو، اللہ کو تو علم ہے کہ تم ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ قول و قرار نہ کرو، ہاں اگر کوئی بات کرنا ہے تو دستور کے مطابق کرو، البتہ عقد کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک عدت پوری نہ ہو جائے اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ کو سب معلوم ہے، لہٰذا اس سے ڈرو اور جان رکھو کہ اللہ بڑا بخشنے والا، بردبار ہے۔

235۔ عدت کے دوران عورت سے اشاروں اور کنایوں میں منگنی کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً کہے کہ میں تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں یا یہ کہے کہ کون ہے جو تجھے پسند نہ کرے۔ اسی طرح دل میں یہ ارادہ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ عدت ختم ہونے کے بعد اس کا اظہار کرے گا۔

لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۲۳۶﴾

۲۳۶۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم عورتوں کو ہاتھ لگانے اور مہر معین کرنے سے قبل طلاق دے دو، اس صورت میں انہیں کچھ دے کر رخصت کرو، مالدار اپنی وسعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی وسعت کے مطابق یہ خرچ دستور کے مطابق دے، یہ نیکی کرنے والوں پر ایک حق ہے۔

وَ اِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ؕ وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۲۳۷﴾

۲۳۷۔ اور اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اور ان کے لیے مہر معین کر چکنے کے بعد طلاق دو تو اس صورت میں تمہیں اپنے مقرر کردہ مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا مگر یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا جس کے ہاتھ میں عقد کی گرہ ہے وہ حق چھوڑ دے اور تمہارا چھوڑ دینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور تم آپس کی احسان کوشی نہ بھولو، یقینا تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نگاہ ہے۔

236۔ 237۔ ان دو آیات اور سنت کی روشنی میں مسئلے کی چار صورتیں بنتی ہیں: 1۔ مہر معین ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو عورت کو نصف مہر ملے گا۔ 2۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو مالدار شوہر اپنی وسعت کے مطابق اور غریب شوہر اپنی وسعت کے مطابق عورت کو کچھ مال دے گا۔ 3۔ مہر معین ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق دے تو پورا مہر دینا ہو گا۔ 4۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق ہو جائے تو اس جیسی عورتوں کو عرف میں جو مہر ملا کرتا ہے وہ دینا ہو گا، جسے مہر مثل کہتے ہیں۔ ذیل کی دو صورتوں میں باقی نصف بھی معاف ہو سکتا ہے: 1۔ عورت خود معاف کر دے۔ 2۔ باپ یا دادا جن کے ہاتھ میں نا بالغ بچی کے نکاح کا اختیار ہوتا ہے، باقی مہر معاف کر دیں۔

نکاح اسلام کے نزدیک نہایت ہی مقدس عمل ہے، جب کہ طلاق اسلام کی نظر میں جائز کاموں میں سب سے مکروہ اور مبغوض کام ہے۔ اسی لیے طلاق کی حدود و شرائط سخت ہیں، جب کہ نکاح کی شرائط آسان ہیں۔ زن و شوہر کے درمیان اختلافات اور نا ہم آہنگی کی صورت میں آخری علاج طلاق ہے۔ قرآن نے طلاق کی نوبت آنے سے پہلے اختلافات کو ختم کرنے کے متعدد حل بتائے ہیں۔ مثلاً عرف کی طرف رجوع کرنا، حَکَم اور منصف کی طرف رجوع کرنا، میاں بیوی کے خاندان کے افراد کی طرف رجوع کرنا اور آخر میں ہمبستری ترک کرنا وغیرہ۔ ان تمام تدابیر میں ناکامی کی صورت میں طلاق کی نوبت آتی ہے۔

حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی ٭ وَ قُوۡمُوۡا لِلّٰہِ قٰنِتِیۡنَ﴿۲۳۸﴾

۲۳۸۔ نمازوں کی محافظت کرو، خصوصاً درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور خضوع کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔

238۔ نمازیں پوری شرائط کے ساتھ وقت پر ادا کی جائیں۔ احادیث کے مطابق نماز وسطیٰ (درمیانی نماز) سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ پہلی نماز ہے جو اسلام میں پڑھی گئی اور دن کے وسط میں بھی ہے اور نماز جمعہ ظہر کی جگہ پڑھی جاتی ہے۔

فَاِنۡ خِفۡتُمۡ فَرِجَالًا اَوۡ رُکۡبَانًا ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۳۹﴾

۲۳۹۔ پھر اگر تم حالت خوف میں ہو تو پیدل ہو یا سوار (جس حال میں ہو نماز پڑھ لو) اور جب تمہیں امن مل جائے تو اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں وہ (کچھ) سکھایا ہے جسے تم پہلے نہیں جانتے تھے۔

239۔ نماز کی محافظت کے ایک مورد کا ذکر ہے کہ نماز کسی بھی حالت میں چھوڑی نہیں جائے گی، حتیٰ کہ حالت خوف میں بھی، جہاں ایک جگہ اطمینان سے نماز پڑھی نہیں جا سکتی۔ خوف کی حالت میں چلتے ہوئے یا سواری کی حالت میں قبلہ رخ ہونا شرط نہیں اور رکوع وسجود کے اشاروں پر اکتفا کیا جائے گا۔ نماز خوف کی تفصیل فقہی کتابوں میں مذکور ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا ۚۖ وَّصِیَّۃً لِّاَزۡوَاجِہِمۡ مَّتَاعًا اِلَی الۡحَوۡلِ غَیۡرَ اِخۡرَاجٍ ۚ فَاِنۡ خَرَجۡنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡ مَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ مِنۡ مَّعۡرُوۡفٍ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۴۰﴾

۲۴۰۔ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کے بارے میں وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک انہیں (نان و نفقہ سے) بہرہ مند رکھا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں، پس اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں تو دستور کے دائرے میں رہ کر وہ اپنے لیے جو فیصلہ کرتی ہیں تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

240۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم آیۂ عدت وفات سے منسوخ ہو گیا ہے۔