وَ اِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ؕ وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۲۳۷﴾

۲۳۷۔ اور اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اور ان کے لیے مہر معین کر چکنے کے بعد طلاق دو تو اس صورت میں تمہیں اپنے مقرر کردہ مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا مگر یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا جس کے ہاتھ میں عقد کی گرہ ہے وہ حق چھوڑ دے اور تمہارا چھوڑ دینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور تم آپس کی احسان کوشی نہ بھولو، یقینا تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نگاہ ہے۔

236۔ 237۔ ان دو آیات اور سنت کی روشنی میں مسئلے کی چار صورتیں بنتی ہیں: 1۔ مہر معین ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو عورت کو نصف مہر ملے گا۔ 2۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو مالدار شوہر اپنی وسعت کے مطابق اور غریب شوہر اپنی وسعت کے مطابق عورت کو کچھ مال دے گا۔ 3۔ مہر معین ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق دے تو پورا مہر دینا ہو گا۔ 4۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق ہو جائے تو اس جیسی عورتوں کو عرف میں جو مہر ملا کرتا ہے وہ دینا ہو گا، جسے مہر مثل کہتے ہیں۔ ذیل کی دو صورتوں میں باقی نصف بھی معاف ہو سکتا ہے: 1۔ عورت خود معاف کر دے۔ 2۔ باپ یا دادا جن کے ہاتھ میں نا بالغ بچی کے نکاح کا اختیار ہوتا ہے، باقی مہر معاف کر دیں۔

نکاح اسلام کے نزدیک نہایت ہی مقدس عمل ہے، جب کہ طلاق اسلام کی نظر میں جائز کاموں میں سب سے مکروہ اور مبغوض کام ہے۔ اسی لیے طلاق کی حدود و شرائط سخت ہیں، جب کہ نکاح کی شرائط آسان ہیں۔ زن و شوہر کے درمیان اختلافات اور نا ہم آہنگی کی صورت میں آخری علاج طلاق ہے۔ قرآن نے طلاق کی نوبت آنے سے پہلے اختلافات کو ختم کرنے کے متعدد حل بتائے ہیں۔ مثلاً عرف کی طرف رجوع کرنا، حَکَم اور منصف کی طرف رجوع کرنا، میاں بیوی کے خاندان کے افراد کی طرف رجوع کرنا اور آخر میں ہمبستری ترک کرنا وغیرہ۔ ان تمام تدابیر میں ناکامی کی صورت میں طلاق کی نوبت آتی ہے۔