وَ لِلۡمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۲۴۱﴾

۲۴۱۔ اور مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق کچھ خرچہ دینا، یہ متقی لوگوں کی ذمے داری ہے۔

کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۲۴۲﴾٪

۲۴۲۔ اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے اس طرح کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ ہُمۡ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحۡیَاہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ﴿۲۴۳﴾

۲۴۳۔ کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا، بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

243۔ الاحتجاج 2: 344 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے: آیت میں اس قوم کا ذکر ہے جو طاعون کی بیماری سے بچنے کے لیے بھاگ نکلی تھی۔ یہ لوگ بے شمار تھے۔ پھر اللہ نے ایک طویل عرصے کے لیے انہیں موت کی نیند سلا دیا، یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں تک گل سڑ کر بکھر گئیں اور وہ خاک ہو گئے۔ پھر جب اللہ نے چاہا کہ اپنی مخلوق کو زندہ دیکھے تو ایک نبی کو مبعوث فرمایا جنہیں حزقیل علیہ السلام کہتے تھے۔ حضرت حزقیل علیہ السلام نے دعا کی تو ان کے جسم یکجا ہو گئے، ان میں روح پلٹ آئی اور جس حالت میں وہ مرے تھے، اسی حالت میں کھڑے ہو گئے اور ایک آدمی بھی کم نہیں نکلا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک لمبی مدت تک زندگی پائی۔ اصول الکافی 8 : 198 میں یہ واقعہ مختلف لفظوں میں نقل ہوا ہے۔ اس میں اس طرح ہے: یہ لوگ شام کی کسی بستی سے نکلے تھے اور ان کی تعداد ستر ہزار (70000) تھی۔

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۴۴﴾

۲۴۴۔اور راہ خدا میں جنگ کرو اور جان لو کہ اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

244۔ اللہ تعالیٰ جہاں بھی جہاد کا حکم دیتا ہے، وہاں اس کے ساتھ فی سبیل اللہ کی قید ضرور لگاتا ہے تاکہ جہاد کا حدود اربعہ متعین ہو جائے کہ کن حالات میں، کن لوگوں کے ساتھ اور کن مقاصد کے لیے جہاد کیا جاتا ہے۔ اسلامی جہاد کشور کشائی اور حکومت و غلبے کے لیے نہیں ہوتا، جیسا کہ دشمنان اسلام نے مشہور کر رکھا ہے۔

مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ؕ وَ اللّٰہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡصُۜطُ ۪ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۲۴۵﴾

۲۴۵۔ کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا زیادہ دے؟ اللہ ہی گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

245۔ یہ رحمت و فیض الٰہی کا بہترین نمونہ ہے۔ ذاتِ بے نیاز، محتاج بندوں سے قرض مانگ رہی ہے، وہ بھی اس مال سے جو اس نے خود عطا کیا ہے۔ حدیث کے مطابق اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً میں کثیر سے مراد ”ناقابل شمار“ ہے۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ قَالَ ہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا ؕ قَالُوۡا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ قَدۡ اُخۡرِجۡنَا مِنۡ دِیَارِنَا وَ اَبۡنَآئِنَا ؕ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ تَوَلَّوۡا اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴿۲۴۶﴾

۲۴۶۔کیا آپ نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کی ایک جماعت (کو پیش آنے والے حالات) پر نظر نہیں کی جس نے اپنے نبی سے کہا: آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کریں تاکہ ہم راہ خدا میں جنگ کریں، (نبی نے) کہا: ایسا نہ ہو کہ تمہیں جنگ کا حکم دیا جائے اور پھر تم جنگ نہ کرو، کہنے لگے:ہم راہ خدا میں جنگ کیوں نہ کریں جب کہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے بچوں سے جدا کیے گئے ہیں؟ لیکن جب انہیں جنگ کا حکم دیا گیا تو ان میں سے چند اشخاص کے سوا سب پھر گئے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰىہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۴۷﴾

۲۴۷۔ اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا: اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے، کہنے لگے: اسے ہم پر بادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا؟ جب کہ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اور وہ کوئی دولتمند آدمی تو نہیں ہے، پیغمبر نے فرمایا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عنایت کرے اور اللہ بڑی وسعت والا، دانا ہے۔

246۔ 247۔ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تقریباً تین صدی بعد کا ہے۔ اس وقت بنی اسرائیل کے متبرک تابوت سمیت فلسطین کا بیشتر علاقہ عمالقہ کے قبضے میں تھا۔ اس لیے جنگ ناگزیر ہو چکی تھی اور اس زمانے میں بادشاہ کا پہلا فرض یہ تھا کہ فوج کی سپہ سالاری کرے، اس لیے بنی اسرائیل نے اپنے وقت کے پیغمبر حضرت شمویل علیہ السلام سے ایک بادشاہ کے تقرر کی درخواست کی۔ چونکہ خود حضرت شمویل علیہ السلام بہت بوڑھے ہو چکے تھے، لہٰذا حضرت شمویل علیہ السلام نے حضرت طالوت ابن کش کو بادشاہ مقرر کیا۔ ممکن ہے طالوت ان کا لقب ہو، چونکہ توریت میں ان کا نام”ساول“ saul آیا ہے۔ ان کا زمانہ حکومت 1012 سے 1028 قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ ان کے تقرر پر بنی اسرائیل نے یہ کہکر اعتراض کیا کہ بادشاہی کے لیے ہم اس سے زیادہ حقدار تھے (شاید قبائلی اور خاندانی طور پر)، ثانیاً یہ شخص فقیر ہے، دولت مند نہیں ہے۔ جواب میں تین نکات بیان ہوئے۔٭ طالوت کا انتخاب اللہ کا انتخاب ہے۔ ٭ وہ عالم ہے۔ ٭ شجاع ہے۔ اس کے بعد ایک ضابطہ ارشاد فرمایا: اللہ جسے چاہتا ہے بادشاہی عطا فرماتا ہے۔ یعنی کائنات میں حاکمِ اعلیٰ اللہ کی ذات ہے۔

وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اٰیَۃَ مُلۡکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَ اٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۴۸﴾٪

۲۴۸۔ اور ان سے ان کے پیغمبر نے کہا: اس کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے سکون و اطمینان کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ و ہارون کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہیں جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، اگر تم ایمان والے ہو تو یقینا اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔

248۔ بنی اسرائیل اسے ”عہد کا صندوق” کہتے تھے، ایک جنگ میں فلسطینی مشرکین نے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا۔ اس صندوق کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں آل موسٰی اور آل ہارون کے باقی ماندہ تبرکات رکھے ہوئے تھے۔ کتب تواریخ و احادیث کے مطابق تابوت، وہی صندوق ہے جس میں حضرت موسیٰ کو لٹا کر دریا کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس صندوق میں درج ذیل تبرکات موجود تھے:

٭وہ تختیاں جو کوہ طور پر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو دی تھیں۔ ٭ توریت کا اصل نسخہ۔٭ ”من“ کی ایک بوتل۔٭ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور زرہ۔ مشرکین اس صندوق کو جس شہر میں رکھتے وہاں وبائیں پھوٹ پڑتیں۔ اس لیے ایک بیل پر رکھ کر اسے ہانک کر چھوڑ دیا گیا۔ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس بیل کو شمویل علیہ السلام کی طرف لے جائیں۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوۡتُ بِالۡجُنُوۡدِ ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبۡتَلِیۡکُمۡ بِنَہَرٍ ۚ فَمَنۡ شَرِبَ مِنۡہُ فَلَیۡسَ مِنِّیۡ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَطۡعَمۡہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡۤ اِلَّا مَنِ اغۡتَرَفَ غُرۡفَۃًۢ بِیَدِہٖ ۚ فَشَرِبُوۡا مِنۡہُ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ ؕ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ہُوَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۙ قَالُوۡا لَا طَاقَۃَ لَنَا الۡیَوۡمَ بِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوا اللّٰہِ ۙ کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۲۴۹﴾

۲۴۹۔جب طالوت لشکر لے کر روانہ ہوا تو اس نے کہا: اللہ ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے، پس جو شخص اس میں سے پانی پی لے وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہو گا مگر یہ کہ کوئی صرف ایک چلو اپنے ہاتھ سے بھر لے (تو کوئی مضائقہ نہیں) پس تھوڑے لوگوں کے سوا سب نے اس (نہر) میں سے پانی پی لیا، پس جب طالوت اور اس کے ایمان والے ساتھی نہر پار ہو گئے تو انہوں نے (طالوت سے) کہا: آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے، مگر جو لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ انہیں خدا کے روبرو ہونا ہے وہ کہنے لگے: بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

249۔ بنی اسرائیل کے جنگجو افراد کو ناکارہ افراد سے جدا کرنے کے لیے ایک امتحان تجویز ہوا کہ جب وہ صحرا نوردی کے بعد ایک نہر پر پہنچ گئے تو ان سے کہا گیا: اس نہر سے سیراب ہو کر پانی نہ پیا جائے۔

وَ لَمَّا بَرَزُوۡا لِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۲۵۰﴾ؕ

۲۵۰۔اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے پر نکلے تو کہنے لگے: ہمارے رب! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتحیاب کر۔

250۔ جالوت: یہ شخص فلسطینی لشکر کا سردار اور نہایت ہی قدآور شخص تھا۔ توریت میں اس کے قد و قامت کے بارے میں ہے کہ اس کا قد 10 فٹ کے قریب تھا۔