آیت 239
 

فَاِنۡ خِفۡتُمۡ فَرِجَالًا اَوۡ رُکۡبَانًا ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۳۹﴾

۲۳۹۔ پھر اگر تم حالت خوف میں ہو تو پیدل ہو یا سوار (جس حال میں ہو نماز پڑھ لو) اور جب تمہیں امن مل جائے تو اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں وہ (کچھ) سکھایا ہے جسے تم پہلے نہیں جانتے تھے۔

تفسیرآیات

نماز کی محافظت کے سلسلے میں حکم دیا جا رہا ہے کہ کسی حالت میں بھی نماز نہ چھوڑی جائے یہاں تک کہ حالت خوف میں بھی، جہاں ایک جگہ اطمینان سے نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔

خوف کی وجہ سے، چلتے ہوئے اور سواری کی حالت میں پڑھی جانے والی نمازوں میں عام نمازوں کی طرح تمام شرائط کی پابندی ضروری نہیں۔ مثلاً قبلہ رخ ہونا، رکوع اور سجود میں جانا وغیرہ، بلکہ راہ چلتے ہوئے رکوع اور سجود کے لیے سر کے اشاروں پر اکتفا کی جائے گی۔ نماز خوف کی تفصیل فقہی کتب میں موجود ہے۔

احادیث

کافی میں منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نماز خوف کے بارے میں سوال کیا گیا:

کَیْفَ یُصَلِّی وَ مَا یَقُوْلُ اِذَا خَافَ مِنْ سَبُعٍ اَوْ لِصٍّ کَیْفَ یُصَلِّی؟ قَالَ: یُکَبِّرُ وَ یُوْمِیئُ اِیْمَائً بِرَأسِہٖ ۔ {اصول الکافی ۳ : ۴۵۷}

جب کسی درندے یا چور کا خوف لاحق ہو تو آدمی کس طرح نماز پڑھے اور کیا کہے ؟آپ نے فرمایا: تکبیر کہنے کے بعد اپنے سر کے اشاروں سے نماز پڑھے۔

حضرت رسالتمآب(ص) سے مروی ہے:

بَیْنَ الْعَبْدِ وَ بَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ ۔ {مستدرک الوسائل ۳ : ۴۵}

انسان اور کفر کے درمیان ترک نماز کا فاصلہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ نماز مومن کی شناخت ہے، لہٰذا ہرحالت میں نماز پڑھنی چاہیے۔

۲۔ مختلف حالتوں میں نماز کی مختلف صورتیں ہیں: فَاِنۡ خِفۡتُمۡ۔۔۔ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ ۔۔۔۔

تحقیق مزید: الکافی ۳ : ۴۵۷۔ التہذیب ۳ : ۲۹۹۔ الوسائل ۵ : ۴۸۷۔


آیت 239