عدت کا حکم


وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۲۳۴﴾

۲۳۴۔ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں، پھر جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو دستور کے مطابق اپنے بارے میں جو فیصلہ کریں اس کا تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

234۔ غیر اسلامی، باطل اور غیر انسانی مراسم پر خط بطلان کھینچتے ہوئے قرآن اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ عدت پوری ہونے کے بعد عورتیں نئی ازدواجی زندگی کے سلسلے میں جو بھی فیصلہ کریں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح زیبائش اور گھر سے نکلنا وغیرہ بھی جائز ہے۔

وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا عَرَّضۡتُمۡ بِہٖ مِنۡ خِطۡبَۃِ النِّسَآءِ اَوۡ اَکۡنَنۡتُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمۡ سَتَذۡکُرُوۡنَہُنَّ وَ لٰکِنۡ لَّا تُوَاعِدُوۡہُنَّ سِرًّا اِلَّاۤ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ۬ؕ وَ لَا تَعۡزِمُوۡا عُقۡدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡکِتٰبُ اَجَلَہٗ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ﴿۲۳۵﴾٪

۲۳۵۔ اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم ان عورتوں کے ساتھ نکاح کا اظہار اشارے کنائے میں کرو یا اسے تم اپنے دل میں پوشیدہ رکھو، اللہ کو تو علم ہے کہ تم ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ قول و قرار نہ کرو، ہاں اگر کوئی بات کرنا ہے تو دستور کے مطابق کرو، البتہ عقد کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک عدت پوری نہ ہو جائے اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ کو سب معلوم ہے، لہٰذا اس سے ڈرو اور جان رکھو کہ اللہ بڑا بخشنے والا، بردبار ہے۔

235۔ عدت کے دوران عورت سے اشاروں اور کنایوں میں منگنی کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً کہے کہ میں تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں یا یہ کہے کہ کون ہے جو تجھے پسند نہ کرے۔ اسی طرح دل میں یہ ارادہ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ عدت ختم ہونے کے بعد اس کا اظہار کرے گا۔

لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۲۳۶﴾

۲۳۶۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم عورتوں کو ہاتھ لگانے اور مہر معین کرنے سے قبل طلاق دے دو، اس صورت میں انہیں کچھ دے کر رخصت کرو، مالدار اپنی وسعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی وسعت کے مطابق یہ خرچ دستور کے مطابق دے، یہ نیکی کرنے والوں پر ایک حق ہے۔

وَ اِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ؕ وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۲۳۷﴾

۲۳۷۔ اور اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اور ان کے لیے مہر معین کر چکنے کے بعد طلاق دو تو اس صورت میں تمہیں اپنے مقرر کردہ مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا مگر یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا جس کے ہاتھ میں عقد کی گرہ ہے وہ حق چھوڑ دے اور تمہارا چھوڑ دینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور تم آپس کی احسان کوشی نہ بھولو، یقینا تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نگاہ ہے۔

236۔ 237۔ ان دو آیات اور سنت کی روشنی میں مسئلے کی چار صورتیں بنتی ہیں: 1۔ مہر معین ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو عورت کو نصف مہر ملے گا۔ 2۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو مالدار شوہر اپنی وسعت کے مطابق اور غریب شوہر اپنی وسعت کے مطابق عورت کو کچھ مال دے گا۔ 3۔ مہر معین ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق دے تو پورا مہر دینا ہو گا۔ 4۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق ہو جائے تو اس جیسی عورتوں کو عرف میں جو مہر ملا کرتا ہے وہ دینا ہو گا، جسے مہر مثل کہتے ہیں۔ ذیل کی دو صورتوں میں باقی نصف بھی معاف ہو سکتا ہے: 1۔ عورت خود معاف کر دے۔ 2۔ باپ یا دادا جن کے ہاتھ میں نا بالغ بچی کے نکاح کا اختیار ہوتا ہے، باقی مہر معاف کر دیں۔

نکاح اسلام کے نزدیک نہایت ہی مقدس عمل ہے، جب کہ طلاق اسلام کی نظر میں جائز کاموں میں سب سے مکروہ اور مبغوض کام ہے۔ اسی لیے طلاق کی حدود و شرائط سخت ہیں، جب کہ نکاح کی شرائط آسان ہیں۔ زن و شوہر کے درمیان اختلافات اور نا ہم آہنگی کی صورت میں آخری علاج طلاق ہے۔ قرآن نے طلاق کی نوبت آنے سے پہلے اختلافات کو ختم کرنے کے متعدد حل بتائے ہیں۔ مثلاً عرف کی طرف رجوع کرنا، حَکَم اور منصف کی طرف رجوع کرنا، میاں بیوی کے خاندان کے افراد کی طرف رجوع کرنا اور آخر میں ہمبستری ترک کرنا وغیرہ۔ ان تمام تدابیر میں ناکامی کی صورت میں طلاق کی نوبت آتی ہے۔