آیات 236 - 237
 

لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۲۳۶﴾

۲۳۶۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم عورتوں کو ہاتھ لگانے اور مہر معین کرنے سے قبل طلاق دے دو، اس صورت میں انہیں کچھ دے کر رخصت کرو، مالدار اپنی وسعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی وسعت کے مطابق یہ خرچ دستور کے مطابق دے، یہ نیکی کرنے والوں پر ایک حق ہے۔

وَ اِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ؕ وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۲۳۷﴾

۲۳۷۔ اور اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اور ان کے لیے مہر معین کر چکنے کے بعد طلاق دو تو اس صورت میں تمہیں اپنے مقرر کردہ مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا مگر یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا جس کے ہاتھ میں عقد کی گرہ ہے وہ حق چھوڑ دے اور تمہارا چھوڑ دینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور تم آپس کی احسان کوشی نہ بھولو، یقینا تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نگاہ ہے۔

تشریح کلمات

مَس:

( م س س ) چھونا۔ ہاتھ لگانا۔ یہاں ہمبستری کی طرف اشارہ ہے۔

فَرِیۡضَۃً:

( ف ر ض ) فرض، معین شدہ۔

الۡمُقۡتِرِ:

( ق ت ر ) تنگ دست، فقیر۔

عُقۡدَۃُ:

(ع ق د) گرہ۔

تفسیر آیات

ان دو آیات اور سنت کی روشنی میں مسئلے کی چار صورتیں بنتی ہیں۔

۱۔ مہر معین ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو عورت کو نصف مہرملے گا۔

۲۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو مالدار شوہر اپنی وسعت کے مطابق اور غریب شوہر اپنی وسعت کے مطابق عورت کو کچھ مال دے گا۔

۳۔ مہر معین ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق دے تو پورا مہر دینا ہو گا۔

۴۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق ہو جائے تو اس جیسی عورتوں کو عرف میں جو مہر ملاکرتا ہے وہ دینا ہو گا، جسے مہر مثل کہتے ہیں۔

ذیل کی دو صورتوں میں باقی نصف بھی معاف ہو سکتا ہے:

۱۔ عورت خود معاف کر دے۔

۲۔ باپ یا دادا جن کے ہاتھ میں نابالغ بچی کے نکاح کا اختیار ہوتا ہے، باقی مہر معاف کر دیں۔

طلاق: نکاح اسلام کے نزدیک نہایت ہی مقدس عمل ہے، جب کہ طلاق اسلام کی نظر میں جائز کاموں میں سب سے مکروہ اور مبغوض کام ہے۔ اسی لیے طلاق کی حدود و شرائط سخت ہیں، جب کہ نکاح کی شرائط آسان ہیں۔

زن و شوہر کے درمیان اختلافات اور ناہم آہنگی کی صورت میں آخری علاج طلاق ہے۔قرآن نے طلاق کی نوبت آنے سے پہلے اختلافات کو ختم کرنے کے متعدد حل بتائے ہیں۔ مثلاً عرف کی طرف رجوع کرنا، حَکَم اور منصف کی طرف رجوع کرنا، میاں بیوی کے خاندان کے افراد کی طرف رجوع کرنا اور آخر میں ہمبستری ترک کرنا وغیرہ۔ ان تمام تدابیر میں ناکامی کی صورت میں طلاق کی نوبت آتی ہے۔

طلاق مرد کے اختیار میں ہے، جب کہ ہمبستری دونوں کے اختیار میں ہوتی ہے۔ مرد کے ہاتھ میں طلاق کا ہوناعائلی نظام زندگی کی حفاظت کے لیے مناسب بلکہ ضروری ہے۔ کیونکہ مرد عائلی نظام میں ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے جہاں اس پر نان و نفقہ واجب ہے، وہاں اس نظام کو قائم رکھنے یا اسے ختم کرنے کا اختیار بھی اس کے پاس ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ عورت مرد کے ہاتھوں میں بے بس ہے۔

اگر شوہر کی طرف سے عورت پر ظلم نہیں ہو رہا اور ازدواجی زندگی معمول کے مطابق گزر رہی ہے تو اس صورت میں طلاق کی نوبت ہی نہیں آتی۔ لیکن اگر شوہر کی طرف سے عورت پرظلم ہو رہا ہے تو عورت خلع کے ذریعے طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اس صورت میں اگر مرد طلاق نہیں دیتا اور ظلم بھی بند نہیں کرتا تو عورت شرعی حاکم اور عدالت کی طرف رجوع کر کے طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے اور شرعی عدالت شوہر سے طلاق کا حق سلب کر کے خود طلاق جاری کرے گی۔

یہ سب کچھ قانون و دستور کی بات ہے۔ واضح رہے کہ قانون انسانی معاشروں کے لیے ہوتا ہے، اس لیے ممکن ہے کہ یہ کلی قانون کبھی کسی فرد کے حق میں نہ ہو۔ اس صورت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا: ’’ آپس میں احسان و اکرام کو نہ بھولو۔

اہم نکات

۱۔ طلاق کے وقت اپنی مالی حیثیت کے مطابق عورت کو کچھ دینا شوہر کا اخلاقی فریضہ ہے۔ مَتِّعُوۡہُنَّ ۔۔۔۔

۲۔ ازدواجی زندگی کا سربراہ اور حقیقت پسند ہونے کی بنا پر مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے تاکہ وہ خوب سوچ سمجھ کر آخری راہ حل کے طور پر دیانتداری کے ساتھ اس حق کو استعمال کرے۔

تحقیق مزید:

آیت ۲۳۶: الکافی ۶ : ۱۰۵۔ الوسائل ۲۱: ۳۰۸۔ مستدرک الوسائل ۱۵ : ۹۰۔

آیت ۲۳۷: الکافی ۶: ۱۰۶۔ الفقیہ ۳ : ۵۰۶۔ التہذیب ۶ : ۲۵۔


آیات 236 - 237