وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ اٰیٰتِنَا فَکَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾

۸۱۔ اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں لیکن وہ ان سے منہ پھیرتے تھے۔

وَ کَانُوۡا یَنۡحِتُوۡنَ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا اٰمِنِیۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ اور وہ پہاڑوں کو تراش کر پر امن مکانات بناتے تھے ۔

فَاَخَذَتۡہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُصۡبِحِیۡنَ ﴿ۙ۸۳﴾

۸۳۔ اور انہیں صبح کے وقت ایک خوفناک آواز نے گرفت میں لے لیا۔

فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿ؕ۸۴﴾

۸۴۔ پس جو وہ کیا کرتے تھے ان کے کام نہ آیا۔

وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ فَاصۡفَحِ الصَّفۡحَ الۡجَمِیۡلَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان موجودات کو برحق پیدا کیا ہے اور قیامت یقینا آنے والی ہے لہٰذا (اے رسول)ان سے باوقار انداز میں درگزر کریں ۔

85۔ تخلیق کائنات ایک واہمہ اور خیال نہیں ہے، نہ ہی عبث اور بے مقصد وجود ہے، بلکہ اس کی تخلیق کے سامنے ایک حکمت، ایک مقصد اور ایک دستور ہے۔ اگر یہ کائنات ایک عبث اور فضول کے طور پر وجود میں آگئی ہوتی تو اسے بے مقصد ختم ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے، بلکہ روز قیامت آنے والا ہے۔ وہاں اس کائنات کی تخلیق کا نتیجہ سامنے آئے گا۔ لہٰذا اے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم! آپ ان کی طرف سے ہونے والے استہزاء اور آزار سے خوبصورتی کے ساتھ درگزر فرمائیں۔ الصَّفۡحَ الۡجَمِیۡلَ ایسا خوبصورت درگزر جس میں سرزنش اور غم و غصے کا اظہار نہ ہو۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پروردگار خلاق ہے۔ پورا تسلط رکھتا ہے۔ علیم ہے، ان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے کہ وہ ایسی ذات کی گرفت سے چھٹ کر کہاں جائیں گے جو طاقت بھی رکھتی ہے اور علم بھی۔ کیونکہ کسی کمزور اور کسی ناداں سے تو ممکن ہے راہ فرار مل جائے مگر اللہ سے نہیں۔

85۔ اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان موجودات کو برحق پیدا کیا ہے اور قیامت یقینا آنے والی ہے لہٰذا (اے رسول) ان سے باوقار انداز میں درگزر کریں۔٭

اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ الۡخَلّٰقُ الۡعَلِیۡمُ﴿۸۶﴾

۸۶۔ یقینا آپ کا رب خالق اور بڑا دانا ہے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دہرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے۔

87۔ السبع المثانی سے مراد سورۃ فاتحہ ہے جو سات آیات پر مشتمل ہے۔ چنانچہ آئمہ اہل بیت علیہ السلام سے مروی متعدد روایات میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ السبع المثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے اور بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ایک آیت، بلکہ سب سے افضل آیت ہے۔ اس طرح سورہ فاتحہ قرآن کا ہم پلہ قرار پاتا ہے۔

چنانچہ صحیح بخاری میں مرفوع روایت موجود ہے کہ السبع المثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ اکثر مفسرین کا بھی یہی مؤقف ہے۔ چنانچہ اصحاب میں سے ابو سعید خدری، عبد اللہ بن مسعود، ابن عباس، ابی بن کعب اور ابوہریرہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔ آیت کا سیاق بتاتا ہے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ میں نہایت نامساعد حالات سے دو چار تھے۔ یہ آیت آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تسلی کے لیے نازل ہوئی کہ مصائب خواہ کتنے ہی گھمبیر کیوں نہ ہوں وہ السبع المثانی اور قرآن کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔

لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۸﴾

۸۸۔ (اے رسول) آپ اس سامان عیش کی طرف ہرگز نگاہ نہ اٹھائیں جو ہم نے ان (کافروں ) میں سے مختلف جماعتوں کو دے رکھا ہے اور نہ ہی ان کے حال پر رنجیدہ خاطر ہوں اور آپ مومنوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔

88۔ آداب پیمبری بیان ہوتے ہیں کہ نہ کافروں کے مال و دولت پر اپنی توجہ مرکوز کریں، نہ ہی ان کی ضلالت پر تاسف کریں۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے قابل توجہ اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عنایتوں کے مستحق اہل ایمان ہیں۔

وَ قُلۡ اِنِّیۡۤ اَنَا النَّذِیۡرُ الۡمُبِیۡنُ ﴿ۚ۸۹﴾

۸۹۔ اور کہدیجئے: میں تو صریحاً تنبیہ کرنے والا ہوں۔

کَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَی الۡمُقۡتَسِمِیۡنَ ﴿ۙ۹۰﴾

۹۰۔ جیسا (عذاب) ہم نے دھڑے بندی کرنے والوں پر نازل کیا تھا ۔

90۔ ولید بن مغیرہ نے حج کے دنوں میں سولہ افراد کو مکہ کی طرف آنے والے راستوں میں تقسیم کر کے بھیجا کہ کوئی شخص رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچنے نہ پائے اور ایمان نہ لائے۔ ان میں سے بعض کہتے تھے قرآن جادو ہے، بعض کہتے تھے قرآن صرف داستانیں ہے اور کچھ کہتے تھے قرآن خود ساختہ ہے۔ چنانچہ ان لوگوں پر ایسا عذاب نازل ہوا کہ بدترین حالت میں مر گئے۔ (مجمع البیان)

حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایت ہے کہ الۡمُقۡتَسِمِیۡنَ سے مراد قریش ہیں۔