آیات 88 - 89
 

لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۸﴾

۸۸۔ (اے رسول) آپ اس سامان عیش کی طرف ہرگز نگاہ نہ اٹھائیں جو ہم نے ان (کافروں ) میں سے مختلف جماعتوں کو دے رکھا ہے اور نہ ہی ان کے حال پر رنجیدہ خاطر ہوں اور آپ مومنوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔

وَ قُلۡ اِنِّیۡۤ اَنَا النَّذِیۡرُ الۡمُبِیۡنُ ﴿ۚ۸۹﴾

۸۹۔ اور کہدیجئے: میں تو صریحاً تنبیہ کرنے والا ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ: مادی اعتبار سے اہل ایمان اور سرداران کفر میں طبقاتی تفاوت بہت زیادہ تھا۔ سرداران کفر نعمتوں سے مالا مال تھے اور مسلمان نہایت خستہ حالی میں مبتلا تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبری کا سرمایہ بھی اسلام پر خرچ ہو چکا تھا۔ اقتصادی بائیکاٹ کی وجہ سے مسلمانوں میں کسی کو اپنی گزر اوقات کے لیے ذریعہ تلاش کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیبؐ کو آداب پیغمبری بیان فرماتا ہے جس میں بالواسطہ طور پر تمام مؤمنین کے لیے دستور زندگی ہے: اس بات پر توجہ ہی نہ رکھو کہ کفر کی مختلف جماعتوں کے پاس مال و دولت اور دنیا کی تمام تر نعمتوں کی فروانی ہے۔ یہ مال دولت اس قابل نہیں کہ آپ کی توجہ کا مرکز بنے۔

۲۔ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ: اور نہ ہی ان لوگوں کے کفر اختیار کرنے پر تاسف کریں۔ یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے گمراہ ہونے پر آپؐ کو تاسف ہو۔

۳۔ وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ: اہل ایمان آپؐ کے لیے قابل توجہ اور آپؐ کی عنایتوں کے مستحق ہیں۔ ان سے تواضع سے پیش آئیں اور ان کی تربیت و تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ قابل توجہ ہے کہ قرآن کی تعبیر وَ اخۡفِضۡ کے معنی ہیں نیچے کریں، جَنَاحَکَ اپنے پروں کو، لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ مؤمنین کے لیے۔ جس طرح پرندے اپنے چوزوں کو نہایت پیار و محبت کے ساتھ اپنے پروں کے نیچے لیتے ہیں، اے رسولؐ! آپؐ بھی اپنے مؤمنوں کے ساتھ اسی طرح پیش آئیں۔

اہم نکات

۱۔ مخالف جماعت کے منفی حالات پر نظر رکھنے کی جگہ اپنی جماعت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے: لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ۔۔۔، وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ ۔۔۔۔


آیات 88 - 89